• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں ترقی پر اتفاق نہ ہوسکا

شائع September 10, 2021
کمیشن کے اجلاس کے وقت قریب ہی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن  کمپلیکس میں وکلا کا احتجاج اور کنونشن جاری تھا — تصویر:  وائٹ اسٹار
کمیشن کے اجلاس کے وقت قریب ہی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کمپلیکس میں وکلا کا احتجاج اور کنونشن جاری تھا — تصویر: وائٹ اسٹار

اسلام آباد: جوڈیشل کمیشن پاکستان کے طویل اجلاس میں عدم اتفاق رائے کے باعث لاہور ہائی کورٹ کی سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر موجود جسٹس عائشہ ملک کی بطور پہلی خاتون جج سپریم کورٹ میں ترقی کمیشن نے مسترد کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ بلڈنگ میں جوڈیشل کمیشن پاکستان کا اجلاس 4 گھنٹوں تک جاری رہا جبکہ قریب ہی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کمپلیکس میں وکلا کا احتجاج اور کنونشن جاری تھا جس میں انہوں نے سپریم کورٹ میں اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تعیناتی میں عدلیہ پر جانبداری کا الزام لگایا جو اس کا تشخص خراب کر رہی ہے۔

جوڈیشل کمیشن کے 8 میں 4 اراکین جسٹس مقبول باقر، جسٹس سردار طارق مسعود، سابق جج دوست محمد خان اور پاکستان بار کونسل کے نمائندے اختر حسین نے جسٹس عائشہ ملک کے تقرر کی مخالفت کی جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطا بندیال، وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل فار پاکستان خالد جاوید خان نے اس کی حمایت کی۔

یہ بھی پڑھیں: جوڈیشل کونسل 9 ستمبر کو جسٹس عائشہ کی سپریم کورٹ میں ترقی پر غور کرے گی

جے سی پی کے ایک اور رکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کے علاج کے باعث بیرون ملک ہونے کی وجہ سے اجلاس میں شریک نہ ہوئے۔

باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اجلاس میں اتفاق رائے نہ ہوسکا جس کی وجہ سے تعیناتی کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیے بغیر ہی اجلاس ختم ہوگیا۔

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق اے جی پی اشتر اوصاف نے کہا کہ ’حالانکہ یہ واضح انکار ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مستقبل میں اس تجویز پر غور نہیں کیا جاسکتا‘۔

پی بی سی کے نمائندے اختر حسین نے بھی فیصلے کو واضح انکار قرار دیتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں ججز کی ترقی میں سنیارٹی کے اصول پر عمل پیرا ہونے پر طویل غور کیا گیا۔

مزید پڑھیں: جسٹس عائشہ کی سپریم کورٹ میں ترقی پر وکلا کا 9 ستمبر کو احتجاج کا اعلان

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا خیال ہے کہ جسٹس عائشہ ملک، جو ایک جونیئر جج ہیں، ان کے بجائے پشاور ہائی کورٹ کی سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر موجود جسٹس مسرت ہلالی کو سپریم کورٹ کی خاتون جج بنانے پر غور کیا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ پی بی سی کا مؤقف یہ تھا کہ خواتین کو ماتحت عدلیہ اور پانچوں ہائی کورٹس میں بڑی تعداد میں تعینات کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جے سی پی کے آج کے فیصلے کو وکلا کی فتح نہیں بلکہ ججز تقرر میں سنیارٹی کے اصول کو برقرار رکھنے کے لیے ان کے مؤقف کی حمایت سمجھا جانا چاہیے۔

تاہم ایک سینئر وکیل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ چیف جسٹس کی تجویز منظور نہ ہوسکی جو ماضی کے معمولات کے برعکس ہے جب عموماً چیف جسٹس کی تجویز منظور کرلی جاتی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بار کونسل کی جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں ترقی کی مخالفت

انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ 17 ججز کی اسامیوں کے باوجود سپریم کورٹ موجودہ 16 ججز کے ساتھ کام جاری رکھے گی، کیونکہ جمعرات کے واقعے کے بعد جے سی پی کا مستقبل قریب میں اجلاس نہیں ہو سکتا۔

دوران اجلاس اٹارنی جنرل نے تجویز دی کہ جسٹس عائشہ ملک کی ترقی کا فیصلہ آئندہ اجلاس تک مؤخر کیا جائے اور اس دوران چیف جسٹس، کمیشن کے آئندہ اجلاس میں تقرر کے لیے ہر ہائی کورٹ سے خاتون جج کے ناموں پر غور کرلیں تاہم ان کی تجویز پر غور نہیں کیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے جوڈیشل کمیشن کے آئندہ اجلاس میں پانچوں ہائی کورٹس سے سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی کے لیے نشستوں کی تعداد یا کوٹہ مختص کرنے پر غور کرنے کی بھی تجویز دی۔

ساتھ ہی کہا کہ کمیشن اس بات کا فیصلہ کرے کہ عدالت عظمیٰ میں کم از کم ایک نشست خاتون جج کی ہو جس میں مستقبل میں اضافہ کیا جاسکے۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس عائشہ کے سپریم کورٹ میں تقرر پر رضامند

دوسری جانب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ کے دروازے کے باہر شاہراہ دستور پر احتجاجی مظاہرے کا اہتمام کیا اور پھر ایس سی بی اے کمپلیکس کے عاصمہ جہانگیر آڈیٹوریم میں کنونشن منعقد کیا۔

احتجاج کرنے والے وکلا نے عدالتی کارروائی کا بھی بائیکاٹ کیا اور عدلیہ کے خلاف نعرے بازی کی۔

کنونشن کے اختتام پر ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں اس بڑھتے ہوئے تاثر پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ عدلیہ کے مختلف معاملات مطلوبہ آزادی اور غیر جانبداری کے ساتھ نہیں چل رہے، جس سے عدلیہ پر عدم اعتماد پیدا ہو رہا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024