ملک میں جمہوریت آج بھی یرغمال ہے، مولانا فضل الرحمٰن
جمعیت علمائے اسلام پاکستان اور اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں جمہوریت آج بھی یرغمال ہے۔
ایبٹ آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ قوم مضطرب ہے کہ جہاں قومیں ترقی کرتی ہیں اور آگے بڑھتی ہیں، وہاں ہم پسپائی اختیار کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں خاص طبقے کو سیاست میں دخل اندازی کا حق نہیں، مولانا فضل الرحمٰن
انہوں نے کہا کہ جس سے ترقی معکوس کہتے ہیں اوپر کی طرف جانے کے بجائے ہم نیچے کی طرف لُڑھک رہے ہیں، ہمارے اکابرین نے پارلیمانی سیاست کے ذریعے سے آئین تشکیل دینے میں جو کامیابیاں حاصل کی تھیں، آج ان کامیابیوں کو ناکامیوں میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے جب ملک بنایا تھا تو تین تصورات موجود تھے لاالہ اللہ کا نعرہ لگا کر ہم نے اپنی قوم کو یہ نظریہ دیا کہ یہ ملک اسلام کے لیے بنے گا اور یہاں اسلام کی حاکمیت ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ انگریز سے آزادی حاصل کرنے کا مقصد یہی تھا کہ اب ہم غلام نہیں رہیں گے اور یہاں پر جمہوریت ہوگی اور ہم جمہوری آزادی کے ماحول میں اپنے فیصلے خود کریں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہندووں سے الگ ہونے کا فلسفہ یہ بتایا گیا کہ ہماری معیشت آزاد ہوگی اور ہم اپنے ملک کے وسائل کے خود مالک ہوں گے لیکن جن کی امیدیں اسلام سے وابستہ تھیں ان کی امیدیں بھی مایوسی میں تبدیل ہوئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جنہوں نے اس وطن عزیز کی آزادی کے لیے قربانیاں دیں اور ملک میں ایک جمہوری نظام برپا کرنے کی آرزو رکھی، اس ملک پر زیادہ تر حکومت آمروں نے کی ہے اور جمہوریت آج بھی یرغمال ہے۔
سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے کہا کہ اگر کسی نے یہ امید وابستہ کی کہ یہاں ایک بہتر معیشت ہوگی تو آج کی نسل جو پاکستان میں ہے، وہ ملک کی معیشت کا انجام بھی دیکھ رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج عام آدمی بھوک اور پیاس کے علاوہ کچھ نہیں دیکھ رہا ہے، ملکی پیداوار میں کمی آئی، پچھلی حکومت کے آخری سال میں سالانہ ترقی پیداوار کا تخمینہ ساڑھے پانچ اور اگلے سال کے لیے ساڑھے 6 فیصد لگایا گیا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی حکومت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تبدیلی سرکار نے ایسی تبدیلی برپا کی ہے کہ 5 اور 6 فیصد کی ترقی خواب بن گئی، ہم اپنی معیشت کا سالانہ تخمینہ زیرو سے بھی نیچے لے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ پھر کہتے ہیں کہ ہماری حکومت میں زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ گئے ہیں، ہمارا کمال ہے لیکن قوم کو یہ کیوں نہیں بتاتے زرمبادلہ کے ذخائر میں جو پیسہ پڑا ہوا ہے وہ 100 فیصد قرضوں کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں ایک فیصد بھی اپنی معیشت کی پیداوار کا نتیجہ نہیں ہے، کیا دھوکے دینا چاہتے ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ آج ملک میں ہم ایک اضطراب اور تشویش محسوس کررہے ہیں کہ آئین کی اسلامی دفعات ہمارے اکابرین کی کاوشوں سے قرار داد مقاصد کے ذریعے آئین پاکستان میں شامل ہوئیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل بنائی گئی، 1973 میں جب آئین بنا، تمام مکاتب فکر کے علما اور ملک کے آئینی اور قانونی ماہرین اس کے اراکین ہیں لیکن 1973 سے آج تک اس اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز پر ایک قانون سازی نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ہم یورپ سے کہنا چاہتے ہیں کہ آپ کامؤقف ہے کہ ہم صرف دہشت گردی کے مخالف ہیں لیکن تمہارا امن بتارہا ہے کہ تمہاری دشمنی وہ دہشت گردوں سے نہیں بلکہ آپ کی دشمنی اسلام اور مسلمانوں سے ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں