پولیس نے نور مقدم قتل کیس میں چالان جمع کرا دیا
پولیس نے پاکستان کے سابق سفیر کی بیٹی نور مقدم قتل کیس کا چالان اسلام آباد کی سیشن عدالت میں جمع کرادیا۔
کیس سیشن جج کامران بشارت مفتی سے منتقل ہونے کے بعد ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ چالان کی کاپیاں 23 ستمبر کو آئندہ سماعت میں تقیسم کی جائیں جب تمام ملزمان موجود ہوں گے۔
مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم کے والدین کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
علاوہ ازیں عدالت نے نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے جوڈیشل ریمانڈ میں توسیع کر دی۔
قتل کیس کے مرکزی ملزم، اس کے والدین اور ان کے گھریلو عملے کے تین افراد کے جوڈیشل ریمانڈ میں آئندہ سماعت تک توسیع کردی۔
گھریلو عملے کی شناخت افتخار، جان محمد اور جمیل کے نام سے ہوئی ہے۔
مزید پڑھیں: نور مقدم قتل: شواہد چھپانے، جرم میں اعانت کے الزامات پر ملزم کے والدین گرفتار
جج نے 23 ستمبر کو تھیراپی ورکس کے 6 ملازمین کو بھی طلب کیا جو اس کیس میں مشتبہ ہیں۔
سماعت کے دوران ظاہر جعفر کے والدین کے وکیل راجا رضوان عباسی نے کہا کہ تھراپی ورکس کے 6 ملازمین کو ضمانت دی گئی ہے اور عدالت انہیں سمن نوٹس جاری کرے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کیمرا سماعت کی درخواست پیش کی جائے گی۔
جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ درخواست جمع ہونے کے بعد قانون کے مطابق دیکھی جائے گی۔
ظاہر جعفر، اس کے والدین ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی اور 3 دیگر ملزمان آج کی سماعت میں موجود تھے۔
نور مقدم قتل کیس
خیال رہے کہ 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔
ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی اور مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت قتل کے الزام میں درج اس مقدمے کے تحت ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: نور مقدم کیس: تھراپی سینٹر کے مالک، ملازمین کی ضمانت کے خلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر
اپنی شکایت میں شوکت مقدم نے بتایا تھا کہ وہ 19 جولائی کو عیدالاضحٰی کے لیے ایک بکرا خریدنے راولپنڈی گئے تھا جبکہ ان کی اہلیہ اپنے درزی سے کپڑے لینے گئی تھیں اور جب وہ دونوں شام کو گھر لوٹے تو ان کی بیٹی نور مقدم گھر سے غائب تھیں۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ مذکورہ لڑکی کا موبائل فون نمبر بند تھا اور اس کی تلاش شروع کی گئی، کچھ دیر بعد نور مقدم نے اپنے والدین کو فون کر کے بتایا کہ وہ چند دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہیں اور ایک یا دو دن میں واپس آ جائیں گی۔
شکایت کنندہ نے بتایا کہ اسے بعد میں ملزم کی کال موصول ہوئی جس کے اہل خانہ سابق سفارت کار کے جاننے والے تھے، جس میں ملزم نے شوکت مقدم کو بتایا کہ نور مقدم اس کے ساتھ نہیں ہے۔
20 جولائی کی رات تقریباً 10 بجے لڑکی کے والد کو تھانہ کوہسار سے کال موصول ہوئی جس میں اسے بتایا گیا کہ نور مقدم کو قتل کردیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق پولیس بعد میں شکایت کنندہ کو ظاہر جعفر کے گھر سیکٹر ایف -7/4 میں لے گئی جہاں اسے پتہ چلا کہ اس کی بیٹی کو تیز دھار ہتھیار سے بے دردی سے قتل کیا گیا ہے اور اس کا سر قلم کردیا گیا ہے۔