حکومت نے تیل کمپنیوں، ریفائنریز کا آڈٹ شروع کردیا
اسلام آباد: حکومت نے تمام آئل ریفائنریز اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سیز) کا آڈٹ شروع کردیا ہے تاکہ ٹیکسوں، مصنوعات کی خریداری اور نقل و حمل کے اخراجات میں بے قاعدگیوں کے امکان کو مسترد کیا جاسکے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک سینئر حکومتی عہدیدار نے بتایا کہ پیٹرولیم ڈویژن نے 25 او ایم سی اور ریفائنریز سے کہا کہ وہ آڈٹ ٹیموں کے جائزے کے لیے متعلقہ ذاتی اور مکمل ریکارڈ کی دستیابی یقینی بنائیں۔
سب سے پہلے ڈائریکٹر جنرل آڈٹ (ڈی جی اے) آف پیٹرولیم اینڈ نیچرل ریسورسز کی ایک آڈٹ ٹیم راولپنڈی میں اٹک ریفائنری لمیٹڈ (اے آر ایل) اور ملتان میں پاک عرب ریفائنری کمپنی (پارکو) کا جبکہ آئندہ ہفتے ماچھیکے اور شیخوپورہ میں تمام او ایم سیز اور ڈپوز کا دورہ کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: اوگرا نے پیٹرولیم بحران کا ذمہ دار 6 آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو ٹھہرادیا
بعدازاں ملک بھی میں آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے دورے کیے جائیں گے۔
پیٹرولیم ڈویژن نے تمام 25 کمپنیوں سے آڈٹ کے لیے سامان کے اعلان کے فارم، ٹریژری چالان، مقدار کے رجسٹرز اور دیگر متعلقہ ریکارڈ کی نقول دستیاب رکھنے اور آڈٹ ٹیموں کے ساتھ بھرپور تعاون کرنے کا کہا ہے جس میں پیٹرولیم ڈویژن کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔
باخبر ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ کارروائی تیل کے بحران کے حوالے سے وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ایک سینئر افسر کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن کی تفصیلی تحقیقات کے پیشِ نظر کی جارہی ہے۔
کمیشن نے مختلف پہلوؤں بشمول پیٹرولیم لیوی، اندرون ملک مال بردار مساوات مارجن، پروڈکٹ آرڈرز وغیرہ اور دیگر چیزوں کے علاوہ پاکستانی مارکیٹ میں اسمگل شدہ مصنوعات کے تفصیلی آڈٹ کی تجویز دی تھی۔
مزید پڑھیں: حکومت کا پیٹرول بحران کی تحقیقات کیلئے انکوائری کمیشن بنانے کا فیصلہ
کمیشن نے اسمگل شدہ پیٹرولیم مصنوعات کی وجہ سے سالانہ تقریباً ڈھائی سو ارب روپے کے نقصان کا تخمینہ لگایا تھا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ پیٹرولیم ڈویژن کو ماچھیکے، ملتان کے آس پاس کے او ایم سی کی مصنوعات کی سورسنگ کے بارے میں شکایات موصول ہوئیں جو مقامی پیداوار سے مطابقت نہیں رکھتی۔
ساتھ ہی یہ اطلاعات بھی تھیں کہ ایران سے اسمگل شدہ مصنوعات لانے والی گاڑیاں کراچی اور ملتان اور شیرشاہ تک پہنچ رہی ہیں لہٰذا محسوس کیا گیا کہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی گنجائش کی صلاحیت اور اسٹاک کی پوزیشن کو مقامی پارکو کی پیداواری صلاحیت کے ساتھ کراس میچ کیا جائے۔
آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ خاصی غیر معمولی چیز ہے کیوں کہ سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن پاکستان کی کارپوریٹ قواعد کے تحت او ایم سیز کے اپنے اور آزاد آڈیٹرز ہیں جن کی آڈٹ رپورٹ سہ ماہی بنیادوں پر ایس ای سی پیمیں جمع کروائی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کسی بھی الجھن کو ایس ای سی پی کے اپنے طریقہ کار کے ذریعے واضح کیا جاسکتا ہے اور کسی بھی شک کی صورت میں نجی شعبے کے اداروں کے خصوصی آڈٹ کا حکم دینے سے پہلے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) سے کراس چیک کیا جاسکتا ہے۔