مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پولیس کے صحافیوں کے گھروں پر چھاپے اور تفتیش
مقبوضہ کشمیر میں پولیس نے چار صحافیوں کے گھروں پر چھاپے مارے جس کے بعد متنازع خطے میں آزادی صحافت پر مزید کریک ڈاؤن کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق خطے کے اہم ترین شہر سرینگر میں چھاپوں کے بعد چاروں صحافیوں کو مقامی تھانوں میں طلب کیا گیا جہاں ان سے پوچھ گچھ کی گئی البتہ پولیس نے ان چھاپوں کی وجہ نہیں بتائی۔
مزید پڑھیں: سید علی گیلانی کی تدفین کی ویڈیو وائرل ہونے پر مقبوضہ کشمیر میں غم و غصہ
پولیس نے صحافیوں اور ان کی شریک حیات کے سیل فون اور لیپ ٹاپ سمیت دیگر دستاویزات اور الیکٹرانک آلات بھی ضبط کر لیے۔
ان میں سے تین صحافی نے غیر ملکی خبر رساں اداروں سے منسلک ہیں جبکہ ایک ماہانہ نیوز میگزین کے ایڈیٹر ہیں۔
میڈیا واچ ڈاگ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے چاروں صحافیوں کی شناخت کشمیر نریٹر میگزین کے ایڈیٹر شوکت مٹہ، ٹی آر ٹی ورلڈ اور ہفنگٹن پوسٹ سے منسلک ہلال میر اور فری لانسر اظہر قادری اور عباس شاہ کے نام سے کی ہے۔
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے اس کارروائی کو دھمکی آمیز رویہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ صحافیوں کی رہائش گاہوں پر پولیس چھاپوں کی سخت مذمت کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں خاتون صحافی کے خلاف غداری کا مقدمہ درج
مقبوضہ کشمیر میں صحافیوں نے طویل عرصے سے زبردست دباؤ میں کام کیا ہے اور ماضی میں انہیں بھارتی حکومت اور علیحدگی پسند گروہوں دونوں کی جانب سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
صحافیوں کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کی منسوخی اور 2019 میں غیرمعمولی لاک ڈاؤن کے دوران خطے کو وفاق کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کیے جانے کے بعد پولیس کی جانب سے ہراساں اور دھمکیاں دینے کے سلسلے میں اضافہ ہوا ہے۔
اس دوران بہت سے صحافیوں کو گرفتار کیا گیا، مارا گیا، ہراساں کیا گیا اور بعض اوقات انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت ان سے تفتیش بھی کی گئی۔
خطے میں صحافیوں کی منتخب تنظیم کشمیر پریس کلب مستقل بھارتی حکومت پر زور دیتی رہی ہے کہ وہ انہیں آزادانہ رپورٹنگ کی اجازت دے کیونکہ سیکیورٹی ایجنسیاں صحافیوں کو دھمکانے اور پریس کو دبانے کے لیے مختلف اوچھے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہیں۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں پولیس مقابلوں اور مظاہروں کی کوریج پر پابندی عائد
بھارت کی جانب سے اگست 2019 میں خطے کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے فیصلے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کئی مہینوں تک صحافت پر جمود طاری ہو گیا تھا، بھارت نے گزشتہ سال جون میں ایک متنازع میڈیا پالیسی متعارف کرائی تھی جو حکومت کو آزادانہ رپورٹنگ کو سینسر کرنے کا وسیع تر اختیارات فراہم کرتی ہے۔
سرکاری ایجنسیوں کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کے خوف سے زیادہ تر مقامی صحافتی ادارے پریس دباؤ کا شکار ہیں، صحافی کو اکثر گمنام آن لائن دھمکیوں کی حامل جانچ پڑتال سے گزرنا پڑتا ہے جن کے بارے میں حکومت کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق بھارتی حکومت سے لڑنے والے باغیوں سے ہے۔