چین کا طالبان کی عبوری حکومت کیلئے 3 کروڑ ڈالر امداد کا اعلان
چین کے وزیر خارجہ وینگ یائی نے افغانستان کے لیے 3 کروڑ ڈالر سے زائد کی امداد کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں ترقی کے لیے چین امداد کرے گا۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق چین کے وزیر خارجہ نے اس بات کا اظہار افغانستان میں سفارتکاروں سے ویڈیو کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
مزید پڑھیں: چین کا افغانستان کی نئی حکومت سے روابط برقرار رکھنے کا عزم
انہوں نے کہا کہ دنیا کے کسی اور ملک کے مقابلے میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ افغانستان کی معاشی اور انسانی بنیادوں پر امداد کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم افغانستان کی خودمختاری اور آزادی کا احترام کرتے ہوئے ملکی ترقی کے لیے ان کی مدد کریں گے۔
وینگ یائی نے کہا کہ وہ افغانستان کو دالوں، سردیوں کی اجناس، ویکسین اور ادویات کی مد میں 3 کروڑ ڈالر سے زائد (20 کروڑ یوآن) کی امداد فراہم کریں گے جبکہ وہ افغان عوام کو 30 لاکھ کووڈ-19 ویکسین کی خوراکیں بھی عطیہ کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔
انہوں نے افغانستان کی نئی عبوری حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ تمام انتہا پسند اور دہشت گرد قوتوں سے تعلقات ختم کر کے ان کے خلاف کارروائی کے لیے اقدامات کریں۔
یہ بھی پڑھیں: ملا حسن اخوند وزیراعظم اور ملا عبدالغنی ان کے نائب ہوں گے، طالبان کا عبوری حکومت کا اعلان
وزیر خارجہ نے کہا کہ خطے کی سیکیورٹی اور استحکام کے لیے تمام فریقین کو خفیہ معلومات کے تبادلے اور سرحدی تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ افغانستان سے دہشت گردی کے خطرے کا خاتمہ کیا جا سکے۔
واضح رہے کہ افغانستان کی سرحدیں پاکستان، ایران، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان سے بھی ملتی ہیں۔
اس سے قبل بدھ کو پریس بریفنگ کے دوران چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے افغانستان میں نئی حکومت کے قیام کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ چین طالبان کی نئی حکومت کے رہنماؤں سے روابط برقرار رکھنے کو تیار ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے کہا تھا کہ چین عبوری حکومت کے قیام کے طالبان کے اعلان کو بہت اہمیت دیتا ہے، اس کے ساتھ ہی تین ہفتوں سے ملک میں جاری انارکی کا خاتمہ ہو گیا ہے اور یہ ملک میں امن و امان کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے انتہائی اہم قدم ہے۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں طالبان کی نئی عبوری حکومت جامع نہیں، یورپی یونین
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہمیں اُمید ہے کہ افغان حکام ہر نسل اور گروہ کے لوگوں کو غور سے سنیں گے تاکہ اپنے لوگوں کی خواہشات اور بین الاقوامی برادری کی توقعات پر پورا اتر سکیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ روز امریکی صدر جوبائیڈن نے دعویٰ کیا تھا کہ چین کو طالبان سے حقیقی مسئلہ درپیش ہے لہٰذا وہ ان کے ساتھ معاہدے کرنے کی کوشش کرے گا۔
جو بائیڈن نے کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ پاکستان، روس اور ایران بھی اسی طرح کریں گے، ان تمام کی جانب سے ایسی کوششیں کی جارہی ہیں۔
چین کی امداد کے باوجود عالمی برادری خصوصاً مغربی ممالک کی جانب سے طالبان کے لیے فوری طور پر کسی امداد یا حکومت تسلیم کیے جانے کا اعلان متوقع نہیں کیونکہ یورپی یونین نے نئی عبوری افغان حکومت کے قیام پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
یورپی یونین نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت جامع نہیں اور مختلف گروہوں کی نمائندگی کا وعدہ پورا کرنے میں ناکام ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 'چین کو طالبان سے حقیقی مسئلہ ہے، اس لیے معاہدے کی کوششیں جاری ہیں'
عالمی ادارے کے ترجمان نے کہا کہ اعلان کردہ ناموں کے ابتدائی تجزیے سے یہ پتا چلتا ہے کہ یہ افغانستان کے نسلی اور مذہبی تنوع کے لحاظ سے ایک جامع اور نمائندہ حکومت کی تشکیل نظر نہیں آتی جس کی ہم امید کرتے تھے اور جس کا طالبان نے وعدہ کیا تھا۔
طالبان نے گزشتہ روز عبوری حکومت اور کابینہ کے اراکین کے ناموں کا اعلان کیا تھا جس میں محمد حسن اخوند وزیراعظم ہوں گے اور طالبان کے شریک بانی ملا عبدالغنی برادر ان کے نائب ہوں گے۔