بک ریویو: ملے جو کہکشاں میں
برِصغیر کے سنیما نے 90 سال پہلے 1931ء میں اس وقت ایک عہد ساز لمحہ دیکھا جب پہلی بار پردے پر بولتی فلم ’عالم آرا‘ کی نمائش کی گئی۔ اگرچہ 7 گانوں پر مشتمل اس پہلی بولتی فلم کو دیکھنے کے بعد سنیما بینوں کو اس کا کوئی ڈائیلاگ تو یاد نہ رہ سکا لیکن وہ اس کے گیت گنگناتے سنیما ہال سے ضرور نکلے۔ گانے فلموں کا اس قدر جزو لازم بن گئے کہ ان کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔
ریڈیو نے فلمی گانوں کو مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچایا اور یوں گیت کاروں، موسیقاروں اور گلوکاروں کی شہرت کو عروج ملتا گیا۔ نہ صرف برِصغیر کی ریڈیو سروسز بلکہ جرمنی کے سرکاری نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) کی اردو سروس کی جانب سے بھی ایسے ریڈیو پروگرامز ترتیب دیے جاتے جن میں 'تخلیق کاروں' کے انٹرویو شامل ہوتے۔
جرمنی کے شہر کولون میں مقیم پاکستانی صحافی و فنکار امجد علی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ڈوئچے ویلے اردو سروس پر واہگہ بارڈر کی دونوں جانب رہنے والی ادبی و ثقافتی شخصیات کے انٹرویوز پر مشتمل پروگرام کا آغاز کیا تھا۔ کہکشاں نامی اس ہفتہ وار سلسلے میں فلمی گانوں کی تخلیق میں شامل شخصیات بطور مہمان شامل ہوا کرتی تھیں۔ یہ پروگرام سامعین میں بے حد مقبول ہوا۔
ریڈیو پروگرام کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے پیش کار امجد علی نے ان انٹرویوز کو تحریری صورت دی۔ ان میں سے چند انٹرویوز بذریعہ ٹیلی فون کیے گئے تھے۔ حال ہی میں لاہور سے منتخب انٹرویوز کو 'ملے جو کہکشاں میں' کے عنوان سے کتاب کی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔ کتاب میں جن شخصیات کے انٹرویو شامل ہیں ان کی خود امجد علی کے ہاتھوں سے قلم و سیاہی سے بڑی ماہرانہ انداز میں بنائی گئی تصاویر کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
سب سے پہلے نور جہاں کا انٹرویو شامل کیا گیا ہے جن کا بطور گلوکارہ شاندار کریئر 1930ء کی دہائی سے 1990ء کی دہائی تک محیط ہے۔ ملکہ ترنم پر پروگرام 24 دسمبر 2000ء یعنی ان کی وفات کے ایک دن بعد نشر کیا گیا تھا۔ یہ پروگرام اس عظیم اداکارہ و گلوکارہ کے ریڈیو پاکستان کو دیے گئے انٹرویو پر مبنی تھا۔ دراصل ڈوئچے ویلے کا ریڈیو پاکستان سے مواد کے تبادلہ کا معاہدہ موجود تھا جس کی وجہ سے ایسا ممکن ہوسکا۔
جاندار تعارف امجد علی نے لکھا تھا اور بیچ بیچ میں ان کے فلمی گانوں کو بھی شامل کیا گیا تھا جو نور جہاں نے قبل از تقسیم ہند بمبئی (ممبئی) اور پاکستان منتقلی کے بعد لاہور میں ریکارڈ کروائے تھے۔ انٹرویو میں ملکہ ترنم نے فلمی موسیقی سے منسلک چند لوگوں کو خراج تحسین پیش کیا جن میں نمایاں طور پر بولی وڈ گلوکارہ لتا منگیشکر کے علاوہ موسیقار ماسٹر غلام حیدر شامل ہیں۔ واضح رہے کہ ماسٹر غلام حیدر نے ہی ان دونوں گلوکاراؤں کو فلموں میں گانے کا موقع دیا تھا۔
پروگرام میں لتا منگیشکر نے امجد علی سے بات کرتے ہوئے ملکہ ترنم کی شفقت اور محبت کا جذباتی انداز میں اظہار کیا۔ لتا کے مطابق نور جہاں نے دنیائے گلوکاری کو ابتدائی برسوں میں بے حد متاثر کیا تھا اور وہ ان کے لیے حوصلے کا باعث بھی بنی تھیں۔
انہوں نے ملکہ ترنم سے بمبئی اور لندن میں ہونے والی چند ملاقاتوں کے تذکرے کے ساتھ واہگہ بارڈر جیسی غیر عمومی جگہ پر 1952ء میں ہونے والی ملاقات کا بھی ذکر کیا ہے۔ ملکہ ترنم واہگہ بارڈر پر لتا اور ان کی بہنوں سے ملنے آئیں اور ان کے لیے لذیذ دوپہر کا کھانا بھی لائی تھیں، وہ سب کھانے سے خوب لطف اندوز ہوئیں۔
بھارت سے تعلق رکھنے والی جس دوسری معروف شخصیت نے نور جہاں کو عروج پانے میں مدد کی تھی وہ بولی وڈ موسیقار نوشاد تھے۔ امجد علی ان سے متعدد بار بذریعہ فون بات کرچکے ہیں۔ اس ممتاز موسیقار نے محمد رفیع کے بارے میں بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ انہوں نے محمد رفیع کو ورسٹائل گلوکار اور ایک رحمدل اور بامروت انسان قرار دیا۔ موسیقار لکشمی کانت نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ مرحوم گلوکار کو زیادہ پیسے کمانے سے زیادہ اپنی اور موسیقار کی توقعات کے مطابق گانا ریکارڈ کروانے کی پرواہ ہوتی تھی۔
تاہم محمد رفیع پر لکھے گئے تعارفی نوٹ میں مصنف سے ایک غلطی ہوگئی ہے۔ محمد رفیع کو 1967ء میں پدم شری کے اعزاز سے نوازا گیا تھا، مصنف نے اس اعزاز کو بھارت کا 'سب سے بڑا اعزار' قرار دے دیا ہے مگر حقیقت میں یہ چوتھا بڑا اعزاز ہے۔
مگر یہ بات تو طے ہے کہ اگر انہیں طویل زندگی ملتی تو انہیں بھارتی سنیما کا اعلیٰ اعزاز داد صاحب پھالکے نہ بھی ملتا تو پدمہ بھوشن یا پدمہ وبھوشن یا بھارت رتنہ کے اعزاز سے انہیں ضرور نوازا جاتا۔
رفیع پر مبنی باب کے تعارف میں جس ایک نکتے کو شامل کیا جانا چاہیے تھا وہ یہ ہے کہ 1958ء کی فلم راگنی کے نیم کلاسیکی گانے 'من مورا بانوارا' گاکر اپنے کریئر کی شروعات کرنے والے رفیع نے کم از کم 4 فلموں میں اداکار و گلوکار کشور کمار پر فلمائے گئے گانوں کو اپنی آواز دی تھی۔
رفیع کی وفات پر انہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کشور کمار نے کہا تھا کہ 'رفیع صاحب کی آواز پر لبوں کو حرکت دینا میرے لیے اعزاز کی بات ہے‘۔
محمد رفیع کامیاب ترین مرد فلمی گلوکار تھے جو اس بات سے بھی ثابت ہے کہ جتنے ان کے طرز گائیکی کی نقل کرنے والے ان کی زندگی حتیٰ کہ ان کی وفات کے بعد بھی منظرِ عام پر آئے اتنے کسی دوسرے گلوکار کے سامنے نہیں آئے۔
ایک اور گلوکار جنہیں کہکشاں میں نمایاں کوریج ملی اور بعدازاں جو کتاب میں بھی زیرِ گفتگو آئے وہ کندن لال یا 'کے ایل' سیگل ہیں۔ 18 جنوری 1997ء کو سیگل کی 50ویں برسی کے موقعے پر امجد علی نے ایک بار پھر نوشاد سے بذریعہ فون گفتگو کی۔ موسیقار نے ایک گلوکار اور انسان کے طور پر سیگل کی خوب تعریف و ستائش کی۔
اگرچہ سیگل شرابی اور جگر کے عارضے میں مبتلا تھے مگر نوشاد کی یہ خوش نصیبی تھی کہ وہ ان سے 1946ء میں ریلیز ہونے والی فلم شاہ جہان کے مشہور گانوں کو گوانے میں کامیاب رہے تھے۔ گلوکار نے مقبولیت پانے اور روح کو چُھو جانے والے گانے 'جب دل ہی ٹوٹ گیا' کو اپنی آخری رسومات کے موقعے پر چلانے کی نصیحت کی تھی۔
شاہ جہان کے اس لازوال گانے کو نئے نویلے گیت کار مجروح سلطان پوری نے لکھا تھا، جنہوں نے تقریباً 6 دہائیوں تک بولی وڈ موسیقی پر راج کیا۔ مصنف و براڈکاسٹر امجد علی کی وجہ سے اس شاعر کے کئی مداحوں کو یہ معلوم ہوسکا کہ مجروح نے یونانی دواسازی پر طبعہ آزمائی کی تھی مگر ایک مشاعرے میں ملنے والی داد نے انہیں کُل وقتی شاعر بننے کا حوصلہ بخشا۔ یہ بھی واضح رہے کہ بمبئی میں منعقدہ ایک مشاعرے ہی میں وہ فلم ساز عبدالرشید 'اے آر' کاردار کی نظر میں آئے تھے۔
کتاب میں مجروح اور 1948ء میں پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد کے گیت کار قتیل شفائی پر جامع اور طویل ابواب شامل کیے گئے ہیں۔ زندگی کے آخری برسوں میں بولی وڈ کے اہم فلم سازوں نے قتیل شفائی کو اپنی فلموں کے گانے لکھنے کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کی اور ان کی پسندیدگی کے لحاظ سے گانے لکھے۔
جنوبی ایشیا میں واحد گیت کار جنہوں نے آسکر اور گریمی جیسے اعلیٰ اعزازات اپنے نام کیے وہ کثیرالجہتی قابلیت کے حامل شخص گلزار ہیں۔ انہیں 2008ء میں ریلیز ہونے والی فلم سلم ڈاگ ملینیئر کے گیت 'جے ہو' پر ان انعامات سے نوازا گیا تھا۔
امجد علی نے اس وقت گلزار سے انٹرویو لیا تھا جب ان کی ہدایت کاری میں بننے والی متنازعہ فلم ماچس کچھ عرصہ پہلے ہی نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ یہ فلم امرتسر کے گولڈن ٹیمپل پر حملے کے بعد پنجاب میں ہونے والے فسادات پر مبنی تھی۔ انٹرویو کا محور فلم ماچس رہی اور گلزار نے تمام سوالات کے جواب اپنے مخصوص دلفریب انداز میں دیے۔
موسیقار خیام، نثار بزمی اور ان سے قدرے کم تخلیقی صلاحیتوں کے مالک لیکن بہت سے مشہور گانوں کو موسیقی دینے والے ایم اشرف کے انٹرویوز میں شوقین قارئین کے مطالعے کے لیے ڈھیر سارا مواد موجود ہے، ہاں البتہ کتاب میں چند دلچسپ سوالوں کا تذکرہ شامل ہوتا تو اچھا تھا، مثلاً خیام کی اپنی اہلیہ گلوکارہ جگجیت کوئر (جن کا حال ہی میں 93 برس کی عمر میں انتقال ہوا ہے) سے پہلی ملاقات کس طرح ہوئی تھی اور ایم اشرف نے کیوں اپنے ساتھی موسیقار منظور سے راہیں جدا کرلی تھیں؟
عظیم قوال نصرت فتح علی خان کی موسیقی کے پروگرام کے سلسلے میں جب کولون آمد ہوئی تو امجد علی نے ان سے بھی انٹرویو لیا۔ بلاشبہ اس انٹرویو کو امجد علی کی جانب سے لیے گئے عمدہ انٹرویوز میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ کولون میں منعقدہ موسیقی کے پروگرام میں قوالیوں کی زبان سے نابلد سیکڑوں افراد نے شرکت کی جن پر استاد کی گلوکاری نے سحر طاری کردیا تھا۔
حاضرین نے نصرت فتح علی خان کو گھیر لیا تھا اور جب ان سے گفتگو کرنے کی کوشش کی گئی تب امجد علی کی موجودگی نے ان کا کام آسان کردیا۔ وہ جرمنی والوں کے سوالات کو پنجابی میں ترجمہ کرتے اور خاں صاحب کے جوابوں کو جرمن میں ترجمہ کرتے۔ صد افسوس کہ 40 ممالک میں اعزازات سے نوازے جانے والے قوال محض 47 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے۔
کتاب میں جن مزید 2 نامور شخصیات کے انٹرویوز شامل کیے گئے ہیں ان میں سرود نواز فنکار استاد امجد علی خان اور شاعر علی سردار جعفری شامل ہیں۔ امجد علی نے اپنی کتاب میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ شاعر علی سردار جعفری کے افسانوں کا پہلا مجموعہ 'منزل' کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔
ملے جو کہکشاں میں
مصنف: امجد علی
ناشر: احمد پبلیکیشنز، لاہور
آئی ایس بی این: 9699225291-978
صفحات: 224