• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

بھارت سمیت کسی بھی ملک کےمسلمانوں کیلئے آواز بلند کرنے کا حق رکھتے ہیں، طالبان

شائع September 2, 2021
سہیل شاہین نے کہا کہ مسلمان ہونے کے ناطے ہم آواز اٹھائیں گے—فائل/فوٹو: اے پی
سہیل شاہین نے کہا کہ مسلمان ہونے کے ناطے ہم آواز اٹھائیں گے—فائل/فوٹو: اے پی

طالبان کے دوحہ میں سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ طالبان، کشمیر اور بھارت سمیت کسی بھی ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے آواز بلند کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کو دیئے گئے انٹرویو میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ ‘طالبان مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے لیے آواز بلند کرنے کا حق رکھتے ہیں جبکہ ہماری کسی بھی ملک کے خلاف مسلح کارروائی کی کوئی پالیسی نہیں ہے’۔

مزید پڑھیں: طالبان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد بھارت سے پہلا باضابطہ سفارتی رابطہ

انہوں نے کہا کہ ‘مسلمان ہونے کے ناطے یہ ہمارا حق ہے کہ کشمیر، بھارت اور کسی بھی دوسرے ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے آواز اٹھائیں’۔

سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ‘ہم اپنی آواز بلند کریں گے اور کہیں گے کہ مسلمان آپ کے اپنے لوگ ہیں، آپ کے اپنے شہری ہیں اور آپ کے قانون کے تحت وہ برابری کے حقوق کے مستحق ہیں’۔

دو روز قبل ہی قطر میں بھارت کے سفیر نے طالبان کے صف اول کے رہنما سے بات چیت کی تھی جو افغانستان پر قبضے کے ان سے پہلا باضابطہ سفارتی رابطہ ہے۔

رائٹرز کے مطابق وزارت خارجہ نے بتایا تھا کہ قطر میں ہندوستانی سفیر دیپک متل نے طالبان کی درخواست پر دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ شیر محمد عباس استنکزئی سے ملاقات کی۔

وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ دیپک متل نے بھارت کے اس خدشے سے بھی آگاہ کیا کہ بھارت مخالف عناصر افغانستان کی سرزمین کو حملوں کے لیے استعمال کر سکتے ہیں جبکہ طالبان کے نمائندے نے سفیر کو یقین دلایا کہ تمام مسائل کو مثبت طور پر حل کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں پیدا ہونے والی حالیہ صورتحال پر بھارت کو منہ کی کھانی پڑی، شیخ رشید

خیال رہے کہ بھارت جموں و کشمیر پر گزشتہ 74 برسوں سے قابض ہے اور پڑوسی ملک پاکستان سے تنازع کی بنیادی وجہ بھی بنا ہوا ہے۔

اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان کی جانب سے کی جانے والی کوششوں پر بھارت نے ہمیشہ منفی رویہ رکھا جبکہ مقبوضہ کشمیر کے اندر ظلم و جبر کا سلسلہ جاری ہے۔

بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں 5 اگست 2019 کو لاک ڈاؤن نافذ کرتے ہوئے سیاسی قیادت اور کارکنوں کو نظر بند کردیا تھا اور عوام کو تعلیم، صحت اور روزگار سمیت بنیادی حقوق سے دور کر رکھا ہے۔

مقبوضہ وادی میں اگست 2019 سے اسکول، کالج اور جامعات سمیت تمام تعلیمی ادارے بند ہیں اور بھارت مخالف تحریک چلانے والے سیاسی رہنماؤں کو مختلف جیلوں اور دیگر مقامات پر حراست میں رکھا ہوا ہے۔

دوسری جانب بھارت میں گزشتہ برس وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں ان کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) شہریت کا متنازع قانون متعارف کروایا تھا، جس کے خلاف مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا تھا۔

مزید پڑھیں: بھارت: سوشل میڈیا پر طالبان کی حمایت کے الزام میں 14 افراد گرفتار

بھارتی حکومت نے مسلمانوں کو احتجاج کے دوران نشانہ بنایا تھا اور درجنوں افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

ادھر افغانستان میں امریکا اور نیٹو فورسز کے مکمل انخلا سے قبل ہی بھارت نے طالبان کی آمد کے پیش نظر اپنے تمام سفارتی معاملات سمیٹ لیے تھے اور پہلے مرحلے پر دیگر شہروں میں قائم قونصل خانوں کو بند کردیا تھا اور اپنے سفارتی عملے کو واپس بلا لیا تھا۔

اسی طرح طالبان کی وجہ سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت مخالف گروپ مضبوط ہونے اور بھارت کو اپنا ہدف بنانے کے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق وائرل ہونے والے ایک ٹی وی مباحثے کی فوٹیج میں پاکستان کی حکمران جماعت تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ایک رہنما سے یہ بیان منسوب ہے کہ ’طالبان نے کہا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں اور کشمیر (آزاد کرانے) میں ہمیں مدد دیں گے’۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کے حفاظتی حصار میں 150 بھارتی سفارتکاروں کا افغانستان سے انخلا

اسی طرح 25 اگست کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا تھا کہ افغانستان میں رونما ہونے والی حالیہ سیاسی صورت حال پر بھارت کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے خلاف سازشوں میں ملوث ہے اور اس کے لیے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بی ایل ایف کو استعمال کررہا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024