طالبان رہنما کا انٹرویو کرنے والی خاتون اینکر افغانستان چھوڑ گئیں
افغان ٹیلی ویژن کی اینکر بہشتا ارغند نے گہری سانس لی اور اپنے سر پر پہنے اسکارف کو درست کیا تاکہ وہ روایتی حجاب میں نظر آئیں جب ایک طالبان عہدیدار بغیر بلائے ان کے سٹوڈیو میں داخل ہوئے اور ان سے انٹرویو لینے کو کہا اس وقت طالبان کو کابل پر قبضہ کیے صرف دو ہی دن ہوئے تھے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اپنے جسم کی طرف دیکھا کہ کوئی حصہ دکھ تو نہیں رہا ہے، جس کے بعد انہوں نے اپنے سوالات کا آغاز کیا۔
اس براہ راست انٹرویو نے دنیا بھر میں شہ سرخیاں بنائیں کیونکہ وہ طالبان کے رکن سے سوال کرنے والی پہلی افغان خاتون صحافی بن گئی تھیں۔
23 سالہ اینکر نے دوحہ میں رائٹرز کو بتایا کہ 'خوش قسمتی سے میں ہمیشہ اسٹوڈیو میں لمبے کپڑے پہنتی ہوں کیونکہ ہمارے پاس مختلف ذہنیت کے لوگ آتے ہیں'۔
مزید پڑھیں: طالبان کے سپریم لیڈر کہاں ہیں؟
وہ نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کی مدد سے 24 اگست کو افغانستان سے فرار ہونے کے بعد اب دوحہ میں قیام پذیر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'خواتین کو طالبان قبول نہیں کرتے اور جب ایک گروہ آپ کو بطور انسان قبول نہیں کرے تو ان کے ذہن میں آپ کے بارے میں کیا تصویر ہوگی، یہ جاننا بہت مشکل ہے'۔
یہ انٹرویو ایک وسیع تر طالبان میڈیا مہم کا حصہ تھا جس کا مقصد قدرے زیادہ اعتدال پسند چہرہ دکھانا تھا کیونکہ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ خواتین کے حقوق کا احترام کریں گے اور دوسرے افغان دھڑوں کو بھی طاقت کی تقسیم کے معاہدے میں شامل کریں گے۔
بہشتا ارغند پہلے ہی اسٹوڈیو میں سیٹ پر موجود تھیں جب طالبان اہلکار وہاں داخل ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ 'میں نے دیکھا کہ وہ (ٹی وی اسٹیشن) پر آئے، میں چونک گئی، میں نے خود پر کنٹرول کھو دیا، میں نے اپنے آپ سے کہا کہ شاید وہ پوچھنے آئے ہیں کہ میں اسٹوڈیو میں کیوں ہوں'۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی زندگی ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہونے سے تقریباً ایک ہفتے قبل کی یہ بات تھی۔
انہوں نے کہا کہ طالبان نے ان کے ادارے طلوع نیوز کو حکم دیا تھا کہ تمام خواتین کا حجاب لازمی پہنائیں، اپنے سر کو ڈھانپیں تاہم چہرہ کھلا رکھیں اور بعد میں دیگر اسٹیشنز پر خواتین اینکرز کو معطل کر دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ طالبان نے مقامی میڈیا سے یہ بھی کہا کہ وہ ان کے قبضے اور ان کی حکمرانی کے بارے میں بات نہ کریں۔
بہشتا ارغند نے کہا کہ 'جب آپ آسان سوال نہیں کر سکتے تو آپ صحافی کیسے بن سکتے ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں: افغانوں سے لاتعلقی، خطے میں عالمی دہشت گردوں کیلئے جگہ ہموار کرسکتی ہے، شاہ محمود قریشی
ان کے کئی ساتھی پہلے ہی ملک چھوڑ چکے تھے جبکہ طالبان نے یقین دہانی کرائی تھی کہ میڈیا کی آزادی ہر روز بہتر ہو گی اور خواتین کو تعلیم اور کام تک رسائی حاصل ہوگی۔
وہ جلد ہی اپنی والدہ، بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ ملک چھوڑنے والی تھیں اور ہزاروں غیر ملکیوں اور افغان شہریوں کے ساتھ شامل ہونے والی تھیں جنہوں نے امریکا کی زیر قیادت انخلا میں حصہ لیا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے ملالہ یوسفزئی کو فون کیا اور اس سے پوچھا کہ کیا وہ میرے لیے کچھ کر سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملالہ یوسف زئی، جس کا انہوں نے اس سے قبل انٹرویو کیا تھا، نے انہیں قطر کے لیے انخلا کی فہرست میں شامل کرنے میں مدد کی۔
بہشتا ارغند نے کہا کہ 'ماضی کو دیکھتی ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ میں اپنے ملک سے اور اپنے پیشے سے کتنا پیار کرتی ہوں جسے میں نے اپنے اہلخانہ کے اعتراضات کے باوجود چنا تھا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'جب میں ہوائی جہاز میں بیٹھی تو میں نے اپنے آپ سے کہا کہ اب میرے پاس کچھ نہیں ہے'۔