کووڈ کے مریضوں کے پھیپھڑوں میں وائرل لوڈ کی زیادہ مقدار موت کا خطرہ بڑھائے
مریضوں کے پھیپھڑوں میں کورونا وائرس کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جانا ممکنہ طور پر موت کی وجہ بنتا ہے۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
نیویارک یونیورسٹی گروسمین اسکول آف میڈیسین اور نیویارک یونیورسٹی لینگون ہیلتھ کی اس تحقیق کے نتائج سابقہ خیالات سے متضاد ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ نمونیا یا جسمانی مدافعتی ردعمل کی شدت بہت زیادہ بڑھ جانا کووڈ سے ہلاکت کا خطرہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تحقیق میں ثابت کیا گیا کہ جو لوگ کووڈ 19 کے باعث ہلاک ہوجاتے ہیں ان کے زیریں نظام تنفس میں وائرس کی مقدار یا وائرل لوڈ کی مقدار دیگر سے 10 گنا زیادہ ہوتی ہے۔
محققین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ پھیپھڑوں کو متاثر کرنے والے وائرس کی تعداد پر جسم کی ناکامی اس وبا کے دوران اموات کی بڑی وجہ ہے۔
اس سے پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ وائرس سے متاثر ہونے پر مدافعتی نظام جسم کے صحت مند ٹشوز پر حملہ آور ہوجاتا ہے اور جان لیوا ورم پھیلنے کا خطرہ بڑھتا ہے۔
مگر اس تحقیق میں اس حوالے سے کوئی شواہد دریافت نہیں ہوسکے بلکہ محققین نے دریافت کیا کہ مدافعتی ردعمل پھیپھڑوں میں وائرس کی مقدار کے مطابق ہوتا ہے۔
اس تحقیق میں سیکنڈری انفیکشنز، وائرل لوڈ اور مدافعتی خلیات کی تعداد کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔
محققین نے بتایا کہ نتائج سے کورونا وائرس کے مریضوں کے زیریں نظام تنفس کے ماحول کا اب تک کا سب سے تفصیلی سروے فراہم کیا گیا ہے۔
تحقیق میں نیویارک یونیورسٹی لینگون کے زیرتحت کام کرنے والے طبی مراکز میں زیرعلاج رہنے والے 589 کووڈ کے مریضوں کے نمونے اکٹھے کیے گئے تھے۔
ان سب مریضوں کو مکینکل وینٹی لیٹر سپورٹ کی ضرورت پڑی تھی جبکہ 142 مریضوں کے سانس کی گزرگاہ کلیئر کرنے کا برونکواسکوپی بھی ہوئی تھی۔
محققین نے جائزہ لیا کہ ان افراد کے زیریں نظام تنفس میں وائرس کی مقدار کتنی تھی جبکہ مدافعتی خلیات کی اقسام اور وہاں موجود مرکبات کا بھی سروے کیا گیا۔
تحقیق میں انکشاف ہوا کہ کووڈ سے ہلاک ہونے والے مریضوں میں ایک قسم کے مدافعتی کیمیکل کی پروڈکشن اس بیماری کو شکست دینے والے افراد کے مقابلے میں اوسطاً 50 فیصد کم ہوجاتی ہے۔
یہ کیمیکل جسم کے مطابقت پیدا کرنے والے مدافعتی نظام کا حصہ ہوتا ہے جو حملہ آور جرثوموں کو یاد رکھتا ہے تاکہ جسم مستقبل میں اس سے زیادہ اچھے طریقے سے نمٹ سکے۔
محققین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ مدافعتی نظام میں مسائل کے باعث وہ کورونا وائرس سے مؤثر طریقے سے کام نہیں کرپاتا، اگر ہم مسئلے کی جڑ کو پکڑ سکیں، تو ہم مؤثر علاج بھی دریافت کرسکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ تحقیق کسی حد تک محدود ہے کیونکہ اس میں ایسے کووڈ مریضوں کو شامل کیا گیا جو ہسپتال میں اولین 2 ہفتوں میں بچنے میں کامیاب رہے، ایسا ممکن ہے کہ بیکٹریل انفیکشنز یا مدافعتی نظام کا حملہ بھی کووڈ سے موت کا خطرہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہوں۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل نیچر مائیکروبائیولوجی میں شائع ہوئے۔