اپوزیشن جماعتوں کا افغانستان کیلئے حکومت کی ’لبرل ویزا پالیسی‘ پر اظہارِ تشویش
اسلام آباد: افغانستان سے جاری انخلا کے معاملے میں اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کی جانب سے اختیار کی گئی ’لبرل‘ ویزا پالیسی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان سے ٹرانزٹ مسافروں کی آڑ میں دہشت گردوں کی دراندازی کا خدشہ ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کی جانب سے افغانستان میں 15 اگست سے رونما ہونے والی سیاسی صورتحال پر پارلیمنٹ اور اپوزیشن کو اعتماد میں نہ لینے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کوئی نہیں جانتا کہ کون اس حوالے سے فیصلے کر رہا ہے۔
مزید پڑھیں: ٹی ٹی پی افغانستان کا نہیں، پاکستان کا مسئلہ ہے، ذبیح اللہ مجاہد
اپوزیشن جماعتوں نے ان خبروں کے بعد تشویش کا اظہار کیا کہ پاکستان ان افغانوں اور دیگر غیر ملکیوں کو سہولت فراہم کر رہا ہے جو افغانستان چھوڑنا چاہتے ہیں اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کراچی میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران انکشاف کیا تھا کہ پاکستان اب تک افغانستان سے 4 ہزار 400 سے زائد لوگوں کو نکال چکا ہے اور 27 ہزار لوگ چمن اور طورخم سرحدوں سے پاکستان میں داخل ہوچکے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ یہ تشویش کی بات ہے کہ حکومت نے آج تک افغانستان کی سیاسی صورتحال پر عوام یا پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مزید تشویش کا باعث یہ ہے کہ افغانستان میں ابھرتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں حکومت نے پہلے ہی جو اقدامات اٹھائے ہیں یا اٹھا رہی ہے ان کے بارے میں پارلیمنٹ کو آگاہ نہیں کیا گیا، بشمول یہ کہ ان لوگوں کو جو ملک چھوڑنا چاہتے تھے انہیں ویزے دینا۔
سینیٹر رضا ربانی نے کئی سوالات اٹھائے اور امید ظاہر کی کہ حکومت ان سوالات کا جواب دے گی۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان سے نکلنے کے لیے پاکستان کو اسٹیجنگ اسٹیشن بنانے کی کیا ضرورت تھی؟
یہ بھی پڑھیں: افغانستان کو تنہا چھوڑا گیا تو اس کا نقصان سب کو ہو گا، شاہ محمود
پی پی پی کے سینیٹر نے حکومت سے یہ بھی کہا کہ وہ ان لوگوں کی قومیتوں کو ظاہر کرے جنہیں افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے کے لیے ویزے دیے جارہے ہیں اور ان کے لیے ویزے کی مدت اور اس کے بارے میں بھی بتایا جائے۔
سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا کہ حکومت وضاحت کرے کہ اس نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا حفاظتی اقدامات کیے ہیں کہ یہ لوگ پاکستان چھوڑ کر چلے جائیں اور مقامی آبادی میں نہ شامل ہوں؟
انہوں نے کہا کہ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ قوم جاننا چاہتی ہے کہ حکومت نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے ہیں کہ عسکریت پسند داعش سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد ویزا دینے کی اس ’لبرل پالیسی‘ کی وجہ سے ملک میں داخل نہیں ہوں گے۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر نے کہا کہ یہ بنیادی سوالات ہیں اور یہ ہر پاکستانی کا حق ہے کہ ان کے بارے میں آگاہ کیا جائے کیونکہ اس سے ان کی زندگی متاثر ہوگی اور ملک کی قومی سلامتی پر طویل مدتی اثر پڑے گا۔
عسکری قیادت کی جانب سے جی ایچ کیو میں 30 تاریخ کو افغان صورتحال پر 3 پارلیمانی کمیٹیوں کے ارکان کو بریفنگ دیے جانے سے متعلق سوال کے جواب میں پی پی پی کے سینیٹر نے اسے ’ناکافی‘ قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے ٹرانزٹ پر آنے والے مسافروں کو کراچی لانے کا فیصلہ مؤخر
سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ پارلیمنٹیرینز کے ایک منتخب گروپ کو بریفنگ دینا مقصد کو پورا نہیں کرے گا، اس سے دوسرے اراکین پارلیمنٹ میں یہ احساس پیدا ہوگا کہ شاید وہ کم اہمیت کے حامل لوگ ہیں۔
بریفنگ کے مقام پر اعتراض کرتے ہوئے سینیٹر نے کہا کہ جو لوگ پارلیمانی کمیٹیوں کو بریف کرنا چاہتے ہیں انہیں کمیٹی کے سامنے پیش ہونا چاہیے کیونکہ کمیٹیاں بہت کم جگہوں پر جاتی ہیں۔
قومی مفاد
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے کہا کہ حکومت کو افغانستان سے آنے والے لوگوں کو ویزے دیتے ہوئے ’قومی مفاد اور انسانیت‘ کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ ’مہاجرین کی آمد‘ نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ ملک کے لیے مزید بحران کا باعث بنے گا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ پناہ گزینوں کے لیے بین الاقوامی مدد حاصل کرے کیونکہ پاکستان اپنے طور پر حالات کو نہیں سنبھال سکے گا۔
ایک اور اپوزیشن جماعت جماعت اسلامی (جے آئی) نے بھی حکومت سے ان لوگوں کی تفصیلات فراہم کرنے کا کہا جنہیں ملک میں ایک مہینے کے لیے ویزا دیا گیا تھا۔
مزیدپڑھیں: افغانستان کو تنہا چھوڑا گیا تو اس کا نقصان سب کو ہو گا، شاہ محمود
پارٹی کے خارجہ امور ونگ کے سربراہ آصف لقمان قاضی نے ایک بیان میں کہا کہ ’کس فورم پر حکومت نے 5 ہزار غیر ملکیوں کو پاکستان آنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے؟
انہوں نے کہا کہ ’اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ غیر ملکی ریمنڈ ڈیوس کی طرح ملکی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں بنیں گے؟ کیا امریکا نے اپنے اسٹریٹجک پارٹنر انڈیا سے اس قسم کے انتظامات مانگے ہیں؟
دو قوم پرست جماعتوں پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے ایم اے پی) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنماؤں کا موقف تھا کہ جو لوگ پاکستان آنا چاہتے ہیں انہیں انسانی بنیادوں پر ایسا کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
کوئٹہ میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئپی کے ایم اے پی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ دنیا کے کسی بھی ملک نے افغانستان جیسی صورتحال کی وجہ سے لوگوں کو ہجرت کرنے سے نہیں روکا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان سے لوگ اپنے ملک میں غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے پاکستان آ رہے ہیں۔
علاوہ ازیں اے این پی رہنما نے کہا کہ ایک طرف حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ امریکا کو جگہ فراہم نہیں کرے گی اور دوسری طرف وہ انخلا کے لیے ملک کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دے رہی ہے۔