بیوروکریٹس اور ججوں کو ایک سے زائد پلاٹوں کی الاٹمنٹ غیر قانونی قرار
اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے اعلیٰ بیوروکریٹس اور ٰ عدلیہ کے ججوں کو ایک سے زائد پلاٹ الاٹ کرنے کی پالیسی کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئی ایچ سی کے جسٹس محسن اختر کیانی نے اضافی پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے معاملے کو اعلیٰ عدلیہ کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ ججوں اور وفاقی سیکریٹریوں کے حوالے کر دیا، تاکہ قانون کے مطابق پالیسی تیار کی جاسکے۔
مزید پڑھیں: کسی جج نے پلاٹ الاٹمنٹ کیلئے درخواست نہیں دی، رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ
عدالت نے نوٹ کیا کہ اعلیٰ عدالتوں کے جج صرف ان فوائد/حقوق کے حقدار تھے جو 1997 کے صدارتی حکم نامے کے ساتھ آئین پاکستان 1973 کے آرٹیکل 205 کے مطابق 5ویں شیڈول میں دیے گئے ہیں۔
عدالتی حکم کے مطابق ’فیڈریشن آف پاکستان کو قانون سازی کے ذریعے ان تمام امور کا واضح غیر امتیازی انداز میں جواب دینا ہوگا تاکہ نظام حکومت پر پاکستان کے شہریوں کا اعتماد بحال ہو‘۔
جسٹس محسن اختر کیانی ایک غیر سرکاری تنظیم 'جیورسٹ فاؤنڈیشن' کی درخواستوں پر سماعت کر رہے تھے جس نے 2006 اور 2008 کے حکومتی فیصلوں کو چیلنج کیا تھا کہ بالترتیب بیوروکریٹس اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے علاوہ دو سابق بیوروکریٹس ابو عاکف، عاصمہ شہزاد کو اضافی پلاٹ الاٹ کیے گئے، ایڈووکیٹ ریاض حنیف راہی نے جیورسٹ فاؤنڈیشن کی نمائندگی کی تھی۔
ان کی درخواست کے مطابق بیوروکریٹس کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ کی سمری اس وقت کے وزیر اعظم نے 27 جون 2006 کو منظور کی تھی جو کہ آئینی دفعات کے خلاف تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ججز اور مسلح افواج کے افسران پلاٹس کے حقدار نہیں، جسٹس عیسیٰ
درخواست میں مسلح افواج کے نظام کا حوالہ دیا گیا کہ وہ اضافی پلاٹوں کو سینیئر درجہ بندی کے لیے مختص کرے تاکہ ان کی شاندار خدمات کو تسلیم کیا جائے اور انہیں رینک کی سنیارٹی کے مطابق اضافی سہولیات دی جائیں۔
عدالتی حکم کے مطابق حکومت نے ’ہاؤسنگ اسکیمز ایکٹ 2013 میں صوابدیدی کوٹہ ختم کر دیا ہے، جس کے بعد اگر وزیر اعظم پاکستان یا کسی اور اتھارٹی کو صوابدیدی اختیار تھا وہ بھی ختم ہوگیا‘۔
حکم نامے کے مطابق 2008 میں ترمیم شدہ پی ایم اسسٹنس پیکیج 2006 کا وجود ختم کر دیا گیا اور مذکورہ اسکیم کے تحت مزید کوئی الاٹمنٹ غیر قانونی سمجھی جائے گی۔
مزید پڑھیں: 'سابق چیف جسٹس کی مراعات غیرآئینی قرار'
عدالت نے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ گریڈ 22 کے افسران کے لیے پی ایم پیکیج (وفاقی سیکریٹریوں اور دیگر سرکاری ملازمین کے لیے سہولیات) کا جواز پیش کریں جو اضافی پلاٹ کی الاٹمنٹ کا تصور فراہم کرتا ہے۔
تاہم وفاقی حکومت کے لا افسران اس کے لیے کوئی قانونی جواز پیش نہیں کرسکے۔
عدالت نے ریماکس دیے کہ مصطفیٰ امپیکس کیس کے بعد مستقبل میں اضافی پلاٹ کی الاٹمنٹ کے لیے ہر کارروائی کے لیے وفاقی حکومت کی منظوری قانون سازی کے ذریعے یا قانونی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس کے بعد جسٹس کیانی نے گریڈ 22 کے لیے پی ایم پیکج کو غیر قانونی قرار دیا۔
درخواست کے مطابق 2006 کی وزیر اعظم کی ہدایت کے مطابق ابتدائی طور پر گریڈ 22 کے افسران کو 36 پلاٹ الاٹ کیے گئے تھے۔