جس طرح لوگ ایئرپورٹ کی طرف بھاگ رہے ہیں، یہ بڑی بدقسمتی ہے، طالبان رہنما
طالبان کے کلچرل کمیشن کے رہنما عبدالقاہر بلخی نے کہا کہ ہم نے سب کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا ہے لیکن لوگوں کی بڑی تعداد ایئرپورٹ کی طرف بھاگ رہی ہے، جو بڑی بدقسمتی کی بات ہے۔
الجزیرہ کو خصوصی انٹرویو میں طالبان رہنما نے کہا کہ ‘مذاکرات جاری ہیں، بالکل یہ ایک مخلوط نظام ہوگا’۔
مزید پڑھیں: اب افغانستان آزاد ہے! خواتین کو شریعت کے مطابق تمام حقوق دیے جائیں گے، ترجمان طالبان
انہوں نے کہا کہ ‘ہم سیکیورٹی کے انتظامات کے بارے میں امریکا کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں اور ان سے ورکنگ ریلیشن شپ میں ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘چیک پوسٹوں کے باہر کنٹرول ہمارا ہے اور اندر کی سیکیورٹی امریکی فورسز کے ہاتھ میں ہے اور ایک دوسرے سے مسلسل رابطہ کرتے ہیں’۔
طالبان رہنما نے کہا کہ ‘یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ اس وقت لوگ جس طرح ایئرپورٹ کی طرف بھاگ رہے ہیں، میرے خیال یہ مناسب نہیں کیونکہ ہم نے ہر کسی کے لیے معافی کا اعلان کردیا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘جو خوف اور ڈر بیٹھ چکا ہے وہ غلط ہے، پیش رفت تیزی سے ہورہی ہے، جس کی وجہ سے تمام لوگ حیران ہیں’۔
عبدالقاہر بلخی کا کہنا تھا کہ ‘جب ہم کابل میں داخل ہوئے تو یہ سب پہلے سے منصوبہ نہیں تھا، کیونکہ ہم پہلے ہی اعلان کر چکے تھے کہ ہم کابل میں داخل ہونے سے پہلے سیاسی حل نکالنا، مشترکہ اور مخلوط حکومت بنانا چاہتے ہیں، لیکن جو کچھ ہوا اس کی وجہ یہ تھی کہ سیکیورٹی فورسز چلی گئیں اور اپنی جگہ خالی کردی’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اسی لیے ہماری فورسز کو کہا گیا کہ داخل ہوں اور سیکیورٹی اپنے ہاتھ میں لیں’ ۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘بین الافغان مذاکرات کا نکتہ یہی ہے کہ ہم ایک معاہدے پر متفق ہوں تاکہ جو حقوق واقعی میں لازمی ہیں’۔
افغانستان میں طرز حکومت سےمتعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ‘شرعی قانون سے ہر کوئی واقف ہے اور خواتین کے حقوق کے بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے’۔
مزید پڑھیں: طالبان نے عام معافی کا اعلان کردیا، خواتین کو حکومت میں شمولیت کی دعوت
انہوں نے کہا کہ ‘نہ صرف خواتین اور مردوں کے حقوق بلکہ بچوں کے حقوق بھی واضح ہیں، اس وقت حالات یہ ہیں کہ جہاں ہم پرامید ہیں کہ مشاورت کے دوران ان کے کیا حقوق ہیں اس کی وضاحت ہوگی’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اولین ترجیح یہی ہے کہ ہمارے درمیان نظم و ضبط قائم ہو اور دوسروں پر قوانین مسلط نہ کیے جائیں لیکن پہلے خود پر نافذ کر کے معاشرے کے دوسروں طبقوں کے لیے مثال بنائیں گے تاکہ اس پر عمل ہو’۔
انہوں نے کہا کہ ‘سب سے پہلے ہم اور ہمارے اراکین ہوں گے اگر وہ کسی ایسے کام میں ملوث ہوئے تو وہ پہلے لوگ ہوں گے جنہیں سزا دی جائے گی’۔
دہشت گردی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ‘میرا نہیں خیال کہ لوگ ہمیں دہشت گرد مانتے ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف ایک اصطلاح تھی، جس کو امریکا نے متعارف کروایا تھا اور جو لوگ اس پر پورا نہیں اترتے تھے انہیں بھی دہشت گرد کہا گیا’۔