چین نامہ: چین میں نقل و حمل کے جدید ذرائع (گیارہویں قسط)
اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔
چین کی آبادی 1 ارب 40 کروڑ سے زیادہ ہوچکی ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی آبادی روزانہ کی بنیاد پر اپنی نقل و حمل کس طرح کرتی ہے؟
سب نے صبح کام پر جانا ہے اور شام کو واپس آنا ہے۔ کیا چین کے ہر شہر میں ان اوقات میں ٹریفک جام ہوجاتا ہے؟ کیا تمام چینی سفر کے لیے اپنی گاڑی یا موٹر سائیکل کا استعمال کرتے ہیں؟ کیا انہیں بھی ہماری طرح بسوں کے دروازوں سے لٹک کر سفر کرنا پڑتا ہے؟ کیا وہ بھی اپنی ٹرینوں میں ہماری طرح کھڑے ہوکر یا فرش پر بیٹھ کر سفر کرتے ہیں؟ کیا ان کے ہاں بھی بارش ہونے پر ٹیکسیوں اور رکشوں کے کرائے دُگنے یا تگنے ہوجاتے ہیں؟
نہیں، یہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ چین نے پچھلے چند سالوں میں لوگوں کے اندرونِ ملک نقل و حمل کو بہتر اور آرام دہ بنانے کے لیے بہت تیزی سے کام کیا ہے۔ اگرچہ زیادہ تر کام بڑے شہروں میں ہی کیا گیا ہے لیکن جو کام ہوا ہے وہ بہترین ہے۔
چین نامہ کی اس قسط میں ہم چین کے مختلف پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک مختصر جائزہ لیں گے۔
سڑکیں اور ہائی وے
چین میں دنیا کا تیسرا بڑا سڑکوں کا نیٹ ورک موجود ہے۔ آج ٹریفک کے لحاظ سے دنیا کے 10 بدترین شہروں کی فہرست نکال کر دیکھ لیں۔ ان میں بیجینگ کیا، چین کے کسی شہر کا نام شامل نہیں ہے۔
بیجینگ حکومت نے 2019ء میں آلودگی اور ٹریفک کا بہاؤ کم کرنے کے لیے دیگر شہروں سے آنے والی گاڑیوں پر سال میں صرف 12 مرتبہ بیجینگ میں داخل ہونے کی پابندی عائد کی تھی۔ ایسی گاڑیاں ہر دفعہ صرف 7 دن کے لیے بیجینگ کی سڑکوں پر چل سکتی ہیں۔ اس کے بعد یا تو انہیں واپس جانا پڑتا ہے یا بیجینگ کے رہائشی علاقوں کی پارکنگ میں پارک ہونا پڑتا ہے۔ اس سے بیجینگ میں ٹریفک کا بہاؤ بے حد کم ہوا ہے۔ تاہم، ہر بڑے شہر کی طرح یہاں کے مصروف ترین حصوں میں بھی رش کے اوقات میں کچھ منٹوں کے لیے ٹریفک رُک سکتا ہے۔
چینی اس کے باوجود پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ انہیں سستی بھی پڑتی ہے اور اس کا علیحدہ روٹ ہونے کی وجہ سے ٹریفک میں ان کا وقت بھی ضائع نہیں ہوتا۔ سڑکوں کے ایک طرف سائیکلوں کی علیحدہ لین بنی ہوتی ہے۔ پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ بھی موجود ہیں جو ہر وقت لوگوں سے بھرے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ پرائیویٹ ٹیکسی بھی لی جاسکتی ہے۔ ٹیکسی میٹر کے حساب سے چلتی ہے۔ ایک کمپنی دی دی کی ٹیکسیاں بھی لی جاسکتی ہیں۔
چین کے پاس دنیا کا سب سے بڑا ہائی وے کا نظام موجود ہے۔ ان ہائی ویز کی کل لمبائی ایک لاکھ 30 ہزار کلومیٹر ہے۔ چینی حکومت کے مطابق یہ ہائیویز دنیا کے گرد 3 بار لپٹی جاسکتی ہیں۔ جیانگ گانگ ایکسپریس وے جو بیجینگ کو ہانگ کانگ اور مکاؤ سے ملاتی ہے، چین کی مصروف ترین ہائی وے ہے۔ اس پر روزانہ ایک لاکھ 40 ہزار ٹن کے کارگو سفر کرتے ہیں۔
سب وے
چین کا شہری ریل ٹرانزٹ سسٹم دنیا کا سب سے بڑا ٹرین کا نظام ہے۔ اس میں سب وے، ٹرین، ٹرام اور مینگلیو شامل ہیں۔ چین نے سب سے پہلی سب وے لائن 1969ء میں بیجینگ میں بنائی تھی۔ اسے لائن ون کہتے ہیں۔ آج چین کے 34 سے زیادہ شہروں میں سب وے سسٹمز موجود ہیں جن میں سے 4 (بیجنگ، شنگھائی، شینجین اور گوانگ جو) کا شمار دنیا کے مصروف ترین سب وے سسٹمز میں ہوتا ہے۔
سب وے کا نظام بالکل ویسا ہی ہے جیسا پاکستان میں میٹرو بس سسٹم اور اورنج ٹرین کا ہے۔ بس اسے تھوڑا سا بڑا کرلیں۔ لاہور میں ابھی صرف ایک لائن بنی ہے۔ یہاں ہر شہر میں سب وے کی متعدد لائنز ہیں جو شہر کے ہر حصے میں جاتی ہیں۔ شہر میں کہیں بھی جانا ہو اپنے قریبی اسٹیشن سے سب وے لیں اور اپنی منزل کے حساب سے لائنز تبدیل کرتے ہوئے وہاں پہنچ جائیں۔
ہم بیجینگ میں رہتے ہیں۔ اس کی 24 لائنز اور 428 اسٹیشنز ہیں۔ کم سے کم کرایہ 3 یوآن اور زیادہ سے زیادہ کرایہ 6 یوآن ہے۔ ٹکٹ سب وے اسٹیشن پر موجود ٹکٹ کاؤنٹر یا خود کار مشینوں سے خریدا جاسکتا ہے۔ زیادہ تر لوگ ٹکٹ کے لیے سب وے کارڈ یا موبائل ایپلیکیشن کا استعمال کرتے ہیں۔ کارڈ کسی بھی اسٹیشن سے ریچارج کروایا جاسکتا ہے۔ موبائل ایپلیکیشن علی پے نامی ایپ سے منسلک ہوتی ہے جو صارف کے بینک اکاؤنٹ یا ایپ میں موجود بیلنس سے ٹکٹ کی ادائیگی کرتی ہے۔ ہر ماہ ایک مخصوص رقم کے خرچ کے بعد سب وے ٹکٹ پر ڈسکاؤنٹ ملنا شروع ہوجاتا ہے۔
سب وے اسٹیشنز اتنے صاف ستھرے ہوتے ہیں جتنے ہمارے ہاں کے ایئرپورٹس۔ صبح اور شام کے وقت سب وے میں بہت رش ہوتا ہے۔ اس کے باوجود کوئی کسی کو دھکا نہیں دیتا۔ سفر کے دوران ہماری آج تک کوئی چیز چوری بھی نہیں ہوئی۔ نہ کبھی کسی نے رش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہراساں کرنے کی کوشش کی۔
بس
چین میں بس کا سفر سب وے سے سستا ہے۔ سب وے میں جس سفر کا کرایہ 5 یوآن بنتا ہے، بس میں وہی سفر ایک یوآن میں کیا جاسکتا ہے۔ البتہ، اس میں وقت زیادہ لگتا ہے۔ عام بسوں کے علاوہ بی آر ٹی بسیں بھی چلتی ہیں۔ ان کا علیحدہ روٹ ہوتا ہے۔ چینی حکومت کے مطابق بی آر ٹی سے ہر روز تقریباً 40 لاکھ افراد سفر کرتے ہیں۔ بی آر ٹی کا نظام ویسا ہی ہے جیسا لاہور میں میٹرو بس کا ہے۔
عام بسوں کا نظام تھوڑا الگ ہے۔ ہر بس کے 2 دروازے ہوتے ہیں۔ ایک آگے اور ایک پیچھے۔ اگلے دروازے سے مسافر بس میں سوار ہوتے ہیں اور پچھلے دروازے سے اترتے ہیں۔ بس کی ٹکٹ کے لیے سب وے کارڈ یا بس کی موبائل ایپلیکیشن کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کارڈ یا ایپ استعمال کریں تو کرایہ ایک یوآن ہوتا ہے۔ ٹکٹ خریدیں تو وہ فاصلے کے حساب سے 2 یا 3 یوآن کا ملتا ہے۔ ہر دروازے کے پاس کارڈ ریڈنگ مشین لگی ہوتی ہے۔ مسافر سوار ہونے کے بعد اور اترنے سے پہلے مشین کے ساتھ اپنا کارڈ لگا کر یا اسکینر میں موبائل ایپلیکیشن کا کوڈ اسکین کرکے ٹکٹ کی ادائیگی کرتے ہیں۔
جنہوں نے ٹکٹ لینا ہو ان کے لیے مشین کے پاس ٹکٹ بھی رکھا ہوتا ہے اور پیسے ڈالنے کے لیے باکس بھی بنا ہوتا ہے۔ کچھ بسوں میں کنڈیکٹر بھی موجود ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ٹکٹ بھی دے رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان کی طرح یہاں کی بسوں میں کنڈیکٹر مسافروں کے پاس نہیں جاتا بلکہ مسافر ٹکٹ لینے خود کنڈیکٹر کے پاس جاتے ہیں۔ بہت سی بسوں میں کنڈیکٹر ہوتے بھی نہیں ہیں۔ چینیوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ اپنی پوری ایمانداری سے ٹکٹ کے پیسے خود بخود ڈبے میں ڈال دیتے ہیں۔
ریلوے کا نظام
چین اپنے ایک لاکھ 46 ہزار کلومیٹر لمبے ریلوے کے نظام کے ساتھ دنیا میں ریل کا دوسرا بڑا سسٹم رکھتا ہے۔ اس کا شمار دنیا کے مصروف ترین ریلوے میں بھی ہوتا ہے۔ چین میں نئے قمری سال کے موقعے پر ریل پر بوجھ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ حکومت کئی ہفتوں پہلے سے ہی اس کی تیاری شروع کردیتی ہے۔ اب فَیس ریکوگنیشن سسٹم کی وجہ سے لوگوں کا ریلوے اسٹیشن کے چیکنگ پوائنٹ پر انتظار کا وقت چند سیکنڈز تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
دنیا کا سب سے بڑا ہائی اسپیڈ ٹرین نیٹ ورک بھی چین میں موجود ہے۔ چین نے کچھ ہی دن پہلے اپنے صوبہ شانڈونگ کے شہر چھنگ داؤ میں دنیا کی تیز ترین میگلیو ٹرین متعارف کروائی ہے۔ اس کی رفتار 600 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ اس سے جنوبی چین میں واقعی شہر شینجن سے چین کے صنعتی شہر شنگھائی کا فاصلہ جو اس وقت تقریباً 200 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ٹرین 10 گھنٹوں میں طے کرتی ہے، اب ڈھائی گھنٹوں میں طے کیا جاسکے گا۔
چین میں 6 اقسام کی ٹرینیں چلتی ہیں۔ ان کی تقسیم رفتار کے حساب سے ہوتی ہے۔ ہر ٹرین میں فرسٹ کلاس، سیکنڈ کلاس اور بزنس کلاس ہوتی ہیں۔ ان سب کلاسز کی ٹکٹ کی قیمت میں بھی فرق ہوتا ہے۔ پاکستان کی طرح یہاں کی ٹرینوں میں دروازے کے ساتھ لٹکنے کی سہولت موجود نہیں ہے۔ دورانِ سفر ٹرین کے دروازے بند ہوتے ہیں۔ ٹرین اپنے شیڈول کے مطابق چلتی ہے۔ نہ ایک منٹ پیچھے نہ ایک منٹ آگے۔ ایک سلیپنگ ٹرین بھی ہے جو پوری رات سفر میں رہتی ہے۔ اس میں مسافروں کو صاف ستھرے بستر، اور باتھ روم دستیاب ہوتے ہیں۔
چینی عوام ان تمام سہولتوں کا پوری ذمہ داری سے استعمال کرتے ہیں۔ وہ بس یا ٹرین میں کچرا چھوڑ کر نہیں جاتے۔ جہاں صفائی عملہ یا کوڑا دان موجود نہ ہوں، وہاں وہ کچرا اپنے ساتھ ہی لے جاتے ہیں۔ وہ حکومت کی طرف سے عائد اصولوں کی پابندی کرتے ہیں۔ جہاں رش ہو وہاں قطار بنا لیتے ہیں۔ ساتھی مسافروں کے لیے سفر مشکل نہیں بناتے۔ بے شک ہماری حکومت کو چینی حکومت سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے لیکن ہمیں بھی بطور عوام چینیوں سے نظم و ضبط سیکھنا چاہیے۔
تبصرے (1) بند ہیں