نئی حکومت جامع نہیں ہوئی تو ہر افغان مزاحمت کرے گا، احمد ولی مسعود
افغانستان میں شمالی اتحاد کے معروف مقتول کمانڈر کے بھائی احمد ولی مسعود نے کہا ہے کہ احمد شاہ مسعود کے بیٹے کا امر اللہ صالح سے کوئی لینا دینا نہیں اور وہ لڑنے کے بجائے تمام نسلی گروہوں پر مشتمل حکومت کے ساتھ ملک میں امن چاہتے ہیں ورنہ سب طالبان کے خلاف مزاحمت کریں گے۔
ڈان نیوز کے پروگرام لائیو ود عادل شاہزیب میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مسعود فاؤنڈیشن کے سربراہ کا کہنا تھا کہ طالبان کے قبضے کے بعد امن ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے اور ملک کے زیادہ تر حصوں کو فتح کرنے کے بعد سب کی نظریں ان پر جمی ہیں۔
خیال رہے کہ احمد ولی مسعود افغانستان کے دیگر غیر پشتون رہنماؤں کے ہمراہ پاکستان میں موجود ہیں جنہوں نے وزیراعظم عمران خان کے علاوہ ملک کی سینئر قیادت سے ملاقاتیں کیں۔
یہ بھی پڑھیں: اب افغانستان آزاد ہے! خواتین کو شریعت کے مطابق تمام حقوق دیے جائیں گے، ترجمان طالبان
احمد مسعود اور وزیر دفاع بسمہ اللہ محمدی نے امراللہ صالح کے ساتھ مل کر پنج شیر سے طالبان کے خلاف مزاحمت کرنے کا اعلان کیا تھا جو ابھی تک طالبان فتح نہیں کرسکے۔
دوسری جانب افغان نائب صدر امر اللہ صالح نے ایک ٹوئٹ میں اعلان کیا تھا کہ ملک کے آئین کے مطابق وہ افغانستان کے صدر ہیں۔
ولی مسعود نے کہا کہ اپنے بھتیجے احمد مسعود اور ہر کسی کی طرح وہ بھی منتظر ہیں کہ (طالبان کی حکومت بنانے کی کوشش کا) کیا نتیجہ نکلتا ہے تو اگر یہ ایک جامع حکومت ہوئی تو ہر کوئی اور وہ خود بھی اسے قبول کریں گے، ساتھ ہی خبردار کیا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو ہر افغان مزاحمت کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کا ایک موقع ہے اس لیے وہ پاکستان کی دعوت پر یہاں آئے، ہم یہاں پاکستان کے ساتھ براہِ راست بات چیت کرنے کے لیے آئے ہیں کیوں کہ ہم پڑوسی ہیں اور یہ براہِ راست دونوں کو متاثر کرے گا۔
مزید پڑھیں: طالبان جنگ جیت چکے ہیں اس لیے ان سے بات کرنا ہو گی، یورپی یونین
احمد ولی مسعود نے ایک مرتبہ پھر یہ بات دہرائی کہ وہ کابل میں صرف پارٹیز نہیں بلکہ نسلی گروہوں کی بنیاد پر ایک جامع اور منصفانہ حکومت چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کا ایک موقع ہے اس لیے وہ پاکستان کی دعوت پر یہاں آئے، ہم یہاں پاکستان کے ساتھ براہِ راست بات چیت کرنے کے لیے آئے ہیں کیوں کہ ہم پڑوسی ہیں اور یہ براہِ راست دونوں کو متاثر کرے گا۔
احمد ولی مسعود نے ایک مرتبہ پھر یہ بات دہرائی کہ وہ کابل میں صرف پارٹیز نہیں بلکہ نسلی گروہوں کی بنیاد پر ایک جامع اور منصفانہ حکومت چاہتے ہیں۔
ان سے جب سوال کیا گیا کہ طالبان انہیں حکومت میں کیوں شامل کریں گے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ان کی مخالفت اور ان کے خلاف لڑائی کرتے رہے؟ جس پر مسعود فاؤنڈیشن کے سربراہ نے کہا کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ طالبان نے صدارتی محل پر قبضہ کرلیا ہے لیکن افغان عوام کے دل و دماغ نہیں جیتے۔
یہ بھی پڑھیں:افغانستان کی صورتحال پر امریکا کا پاکستان، بھارت، چین اور روس سے رابطہ
انہوں نے مزید کہا کہ 'افغانستان میں حکومت کے لیے عوام کے دل و دماغ کو جیتنا ہوگا ورنہ یہ بھی دوسری طاقتوں کی طرح ہوگا جو گزشتہ 40 برسوں میں یہاں آئیں اور ہم سب تاریخ جانتے ہیں۔
غیر پشتون رہنماؤں کو مذاکرات کی میز پر لانے میں پاکستان کے کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے احمد ولی مسعود نے کہا کہ وہ پہلے بھی یہاں آئے ہیں لیکن اس مرتبہ وہ ایک فرق، دل اور حکمت عملی میں تبدیلی دیکھ رہے ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے [امن کے لیے] اور اپنی غلطیوں سے سیکھنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے، ایک پرامن اور مستحکم افغانستان پاکستان کے لیے ضروری ہے جو افغانستان کے ذریعے وسطی ایشیا تک کاروباری اور اقتصادی زون چاہتا ہے۔
اشرف غنی کے کردار پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ افغانستان میں امن میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے، اشرف غنی اپنا اختیار برقرار رکھنے کے لیے ملک میں اپنی طرز کا تشدد جاری رکھنا چاہتے تھے اور آخر میں وہ فرار ہوگئے۔
احمد ولی مسعود نے کہا کہ اشرف غنی نے ایک کرپٹ لیڈر کی طرح پیسے کے تھیلوں کے ساتھ ملک چھوڑا جو وہ شروع سے تھا، وہ ایک چور تھا اور ہر کوئی انہیں پہلے دن سے جانتا تھا۔