ہواوے نے پاکستان میں جاسوسی کے الزامات کو مسترد کردیا
ہواوے نے پاکستان میں جاسوسی اور تجارتی راز چرانے کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے کوئی شواہد نہیں جن سے ثابت ہوتا ہو کہ اس کی مصنوعات میں کوئی 'بیک ڈور' موجود ہے۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب امریکا سے تعلق رکھنے والی کمپنی بزنس ایفیشنسی سلوشنز (بی ای ایس) ایل ایل سی کی جانب سے کیلیفورنیا کی وفاقی عدالت میں پنجاب حکومت کے ایک منصوبے میں ہواوے کے ساتھ کام کرتے ہوئے چینی کمپنی کی جانب سے تجارتی رازوں کی مبینہ چوری پر مقدمہ دائر کیا گیا۔
اپنے مقدمے میں امریکی کمپنی نے ہواوے پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ اپنی ٹیکنالوجی ایک 'بیک ڈور' تشکیل دینے کے لیے استعمال کررہی ہے جس سے اسے 'پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے اہم' حساس ڈیٹا اکٹھا کرنے میں مدد ملی۔
ان الزامات پر ہواوے کی جانب سے 17 اگست کو جاری بیان میں کہا گیا کہ ہواوے پاکستان نے اسلام آباد کی ایک عدالت میں ستمبر 2018 میں بی ای ایس کے خلاف کانٹریکٹ تنازع پر ثالثی کی درخواست جمع کرائی تھی۔
کمپنی کے مطابق ثالثی کا یہ عمل اب بھی جاری ہے اور وہ زیرسماعت قانونی مقدمات پر بات نہیں کرنا چاہتی۔
بیان میں کہا گیا کہ 'ہواوے دیگر کمپنیوں کی انٹلکچوئل پراپرٹی کا احترام کرتا ہے اور ایسے کوئی شواہد نہیں کہ ہواوے کی جانب سے اپنی مصنوعات میں بیک ڈور کو نصب کیا گیا ہو'۔
ہواوے کا مزید کہنا تھا کہ مقدمے میں لگائے جانے والے الزامات کمپنیوں کے درمیان طویل عرصے سے جاری قانونی تنازع کا نتیجہ ہیں۔
بیان کے مطابق 'ہواوے نے 2016 میں لاہور کے سیف سٹی پراجیکٹ کی تعمیر کے حقوق حاصل کرنے کے لیے بی ای ایس کی خدمات سافٹ ویئر اور دیگر سروسز کے لیے حاصل کی تھیں، یہ تعلق خراب ہونے پر ہواوے نے پاکستان میں بی ای ایس پر مقدمہ دائر کیا، جہاں بی ای ایس نے بھی ہواوے پر ہرجانے کا دعویٰ کیا۔ یہ سماعت ابھی جاری ہے اور بی ای ایس اب فعال نہیں رہی اور اس کے پاس کوئی آمدنی بھی نہیں'۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ہواوے چین میں لاہور پراجیکٹ کے ایک الگ ورژن کو تشکیل دینے کو تسلیم کرتی ہے مگر یہ ٹیسٹ ورژن ہے جو کسمٹرز لائیو نیٹ ورک سے تعلق نہیں رکھتا۔
کمپنی نے کہا کہ اس سے ہواوے کے لیے کسٹمرز لائیو نیٹ ورک سے ڈیٹا اکٹھا کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔
اس بیان میں کسٹمر کا حوالہ پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کے لیے استعمال ہوا ہے۔
الزامات
بی ای ایس کی جانب سے دائر درخواست کے مطابق ہواوے نے بی ای ایس کے ساتھ 2016 میں 15 کروڑ ڈالرز کا ذیلی معاہدہ کیا جس کا مقصد لاہور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے نئی ٹیکنالوجی پر مبنی حکومتی سافٹ ویئر پروگرام کو تیار کرنا تھا۔
بی ای ایس کا کہنا تھا کہ اس نے پراجیکٹ کے لیے مختلف سافٹ ویئرز تیار کیے جو حکومتی ایجنسیز کا ڈیٹا اکٹھا کرنے، عمارات تک رسائی کے کنٹرولز، سوشل میڈیا مانیٹر اور ڈرون کے انتظام کے ساتھ کافی کچھ کرسکتے ہیں۔
امریکی کمپنی کے مطابق بی ای ایس کے تیار کردہ 8 سافٹ ویئر سسٹمز میں بی ای ایس کے بزنس کے اہم ترین تجارتی راز پر مبنی تفصیلات موجود ہیں۔
ہواوے کے حکام نے مبینہ طور پر بی ای ایس سے یہ تفصیلات ٹیسٹنگ کے لیے چین میں کمپنی کو بھیجنے کی ہدایت کی اور بی ای ایس نے اسے تسلیم بھی کیا مگر ٹیکنالوجی کے استعمال کا اختیار اس وقت ختم کردیا گیا جب ہواوے نے ٹیسٹنگ لیبارٹری میں امریکی کمپنی کی رسائی کو روک دیا۔
مقدمے میں کہا گیا کہ ہواوے نے اب تک سافٹ ویئر کے خفیہ ڈیزائن ٹولز کو واپس نہیں کیا اور سافٹ ویئر کو ان انسٹال بھی نہیں کیا جس پر اس نے اتفاق کیا تھا۔
بی ای ایس کا الزام ہے کہ ہواوے نے بعد میں ڈیٹا اکٹھا کرنے والے سافٹ ویئر کو انسٹال کرنے کا مطالبہ کیا جو پاکستانی اداروں کی جانب سے مختلف ذرائع اور حکومتی اداروں سے حساس ڈیٹا کے حصول اور تجزیے کے لیے استعمال کیا جارہا تھا، اس بار اس مققصد ٹیسٹنگ نہیں تھا بلکہ لاہور سیف سٹی پرایکٹ کے ڈیٹا تک مکمل رسائی تھا۔
بی ای ایس کے مطابق اس نے معاہدہ ختم ہونے اور رقم رکے جانے کے خطرے پر اس مطالبے کو اس وقت تسلیم کیا جب ہواوے نے کہا کہ اس نے پاکستانی حکومت سے منظوری حاصل کرلی ہے۔
امریکی کمپنی نے الزام لگایا کہ ہواوے سافٹ ویئر کو چین سے لاہور تک بیک ڈور رسائی کے لیے استعمال کیا جبکہ چینی کمپنی نے اس کے کچھ سافٹ ویئرز کی ادائیگی بھی نہیں اور اس کے تجارتی رازوں کو پاکستان اور دنیا کے دیگر حصوں میں سیف سٹی سے ملتے جلتے منصوبوں پر غلط طریقے سے استعمال کیا۔
حکام کی جانب سے الزامات کی جانچ پڑتال
پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کے چی آپریٹنگ آفیسر کامران خان نے اس حوالے سے کہا کہ اتھارٹی نے ڈیٹا کی لیکج کی جانچ پڑتال کے لیے ٹیموں کو تشکیل دیا گیا تھا مگر اب تک کسی قسم کے شواہد دریافت ہیں ہوسکے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیموں کی جانب سے یہ تعین کرنے کوشش کی جارہی ہے کہ کیا ڈیٹا تک رسائی حاصل کی گئی مگر تھرڈ پارٹی آڈٹ میں بھی کوئی خلاف ورزی دریافت نہیں ہوسکی۔
انہوں نے بتایا کہ ہواوے کی جانب سے اتھارٹی کو تیکنیکی معاونت فراہم کی جارہی ہے اور ڈیٹا بینک کے لیے سافٹ ویئر تیار کرکے دیئے جارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ' 7 سافٹ ویئر سسٹمز پر اتفاق ہوا تھا مگر اتھارٹی کو اب تک 3 ہی مل سکے ہیں ' ۔
انہوں نے بتایا کہ اتھارٹی نے ڈیٹا کے تحفظ کے یے اپنا فائروال تشکیل دیا اور ڈیٹا تک رسائی روکنے کے لیے اسے مسلسل اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔
کامران خان کے مطاب ہواوے کو صرف شہر میں نصب کیمروں تک رسائی حاصل ہے اور چینی کمپنی کو کسی قسم کے ڈیٹا تک رسائی حاصل نہیں۔