افغانستان میں طالبان کی حکومت تسلیم کرنا ‘خطے کا فیصلہ’ ہوگا، فواد چوہدری
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا ‘خطے کا فیصلہ’ ہوگا جو خطے اور عالمی طاقتوں سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔
اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ میں فواد چوہدری نے زور دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت تسلیم کرنا پورے خطے کا فیصلہ ہوگا، اس حوالے سے پاکستان ‘یک طرفہ فیصلہ’ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے۔
مزید پڑھیں:طالبان نے عام معافی کا اعلان کردیا، خواتین کو حکومت میں شمولیت کی دعوت
افغانستان کی صورت حال اور طالبان کے قبضے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان عالمی برادری کا ایک ذمہ دار حصہ ہے اور اس کے فیصلے یک طرفہ نہیں ہوں گے۔
وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ‘ہم خطے اور عالمی سطح پر اپنے دوستوں سے رابطے میں ہیں اور ہم اسی کے مطابق فیصلے کریں گے’۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے ترک ہم منصب سے ایک روز قبل افغانستان کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی ہے جبکہ امریکی سیکریٹری اسٹیٹ کی اسی معاملے پر وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے بات ہوئی ہے۔
'افغانستان میں متفقہ حکومت کے اصول پر کاربند رہیں گے'
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ اجلاس میں افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا اور گزشتہ روز امریکی سیکریٹری خارجہ کی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے بھی تفصیلی بات چیت ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس معاملے پر افغانستان کے اندرونی گروہوں اور دوست ممالک سے بھی رابطوں میں ہیں اور صورتحال پر اس لیے اطمینان ہے کہ اب تک افغانستان میں آنے والی تبدیلی میں خونریزی نہیں ہوئی اور بڑے پیمانے پر لوگ نقصان سے محفوظ ہیں۔
مزید پڑھیں: کابینہ نے سائبر سیکیورٹی پالیسی تشکیل دینے کی منظوری دے دی
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ طالبان انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کریں گے، ہم چاہتے ہیں کہ کابل میں نئی حکومت بنیادی انسانی بین الاقوامی حقوق کا احترام کرے۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں جب اشرف غنی کی حکومت تھی انہیں بھی متعدد مرتبہ یہ مشورہ دینے کی کوشش کی تھی کہ آپ افغانستان پر اکیلے حکومت نہیں کرسکیں گے کیوں کہ ایک بہت بڑی قوم حکومت میں شامل ہی نہیں تھی تو وہ کیسے چل سکتی تھی۔
فواد چوہدری نے کہا کہ باجوڑ کے جلسے میں بھی وزیراعظم نے افغان حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ نئے انتخابات پر توجہ دینے کے بجائے مختلف گروہوں کے ساتھ بات کر کے جامع حکومت تشکیل دینے کی کوشش کریں جو متفقہ ہو اور جس پر تمام گروہوں کا اعتماد ہو۔
انہوں نے کہا کہ ہم اسی اصول پر کاربند ہیں اور اسی کو لے کر آگے بڑھیں گے۔
'حکومت کا ملک میں نئی اسپورٹس پالیسی بنانے کا فیصلہ'
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ کابینہ نے ملک میں کھیلوں کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ملک میں نئی اسپورٹ پالیسی بنانے کی ہدایت کردی ہے۔
خیال رہے کہ کابینہ کا فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب ٹوکیو اولمپک میں پاکستانی کھلاڑیوں کی ناقص کارکردگی اور انہیں بہتر سہولیات نہ ملنے کے باعث حکومت پر تنقید کی جارہی تھی۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہماری اسپورٹس فیڈریشنز جس طرح اپنا کام نہیں کر پارہیں اور اولمپک میں جو ہمارے کھلاڑیوں کی کارکردگی رہی اس پر وزیراعظم نے ناراضی کا اظہار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ تمام معاملات کا ازسر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کابینہ نے وفاقی محکموں میں افرادی قوت سے متعلق اصلاحات کی منظوری دے دی
انہوں نے کہا کہ وزیر برائے بین الاصوبائی روابط فہمیدہ مرزا کو اسپورٹس پالیسی کا مکمل جائزہ لینے اور نئی اسپورٹس پالیسی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے، کھیلوں کا تمام انفرا اسٹرکچر تبدیل کیا جائے گا جس کے نتائج جلد سامنے آئیں گے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ اسپورٹس ایسوسی ایشن پر حکومت کا کوئی زور نہیں ہوتا یہ لوگ خود منتخب ہو کر ان عہدوں پر پہنچتے ہیں لیکن اس میں الیکشن کا نظام اس قدر دھاندلی زدہ ہے کہ اس میں میرٹ پر لوگ اوپر نہیں آپارہے لہٰذا وزیراعظم نے اس نظام کو بدلنے کی ہدایت کی ہے۔
'یکساں تعلیمی نصاب پی ٹی آئی کا منشور تھا'
وفاقی وزیر نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے منشور میں یہ ایک قوم اور ایک نصاب کا وعدہ کیا گیا تھا، اس وقت پاکستان میں جو مختلف نصاب پڑھائے جارہے ہیں اس سے ہم قوم کے اندر ہی مختلف طبقات پیدا کررہے ہیں اور ہماری یہ کوشش تھی کہ بنیادی تعلیم کے کم از کم معیارات یکساں ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی کابینہ نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی منظوری دے دی
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بڑی خوشی ہے کہ پہلی مرتبہ ہمارے مدارس میں بھی جدید نصاب پڑھایا جائے گا اور اسکولوں میں ناظرہ قرآن کی تعلیم بھی دی جائے گی اور وزیراعظم نے آٹھویں اور نویں جماعت میں سیرت النبی ﷺ پڑھانے پر بھی زور دیا ہے۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کابینہ اجلاس میں بابر اعوان نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینز پر تفصیلی بریفنگ دی جس کے بعد تمام قانونی مراحل طے کر کے ای وی ایم متعارف کروانے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرنے جارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے الیکشن کمیشن کو اپنا مؤقف فراہم کردیا ہے اور ای وی ایم کا عملی مظاہرہ بھی کیا گی۔
'سیکیورٹی اخراجات کو منطقی بنایا جائے گا'
ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں سیکریٹری داخلہ کی جانب سے اہم سرکاری شخصیات کی سیکیورٹی اور پروٹوکول سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی گئی جنہیں منطقی بنایا جائے گا، اس سیکیورٹی پر اسلام آباد پولیس کے 95 لاکھ روپے خرچ ہورہے ہیں۔
اسی طرح عدلیہ کی سیکیورٹی پر 30 کروڑ 40 لاکھ روپے جبکہ وزیراعظم، وزرا، مشیر معاونین کی سیکیورٹی کا خرچ 45 کروڑ 40 لاکھ روپے ہے۔
دوسری جانب سیکیورٹی پر پنجاب پولیس کا سالانہ خرچ 2 ہزار 509 ملین ہے، وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور گورنر کی سیکیورٹی پر 42 کروڑ 70 لاکھ روپے، سابق وزرائے اعلیٰ، وزرا اور بیوروکریٹس کی سیکیورٹی پر 10 کروڑ 58 لاکھ 70 ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ لاہور میں عدلیہ کی سیکیورٹی پر ایک ارب 14 کروڑ 31 لاکھ 70 ہزار روپے سالانہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ کفایت شعاری مہم کے ذریعے وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر کے اخراجات گزشتہ حکومتوں کے مقابلے میں کم کیے گئے اسپیکر قومی اسمبلی نے ایک ارب 57 کروڑ روپے قومی خزانے کو واپس کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے جاتی امرا اور لاہور میں کیمپ آفسز ڈیکلیئر کرکے تمام خرچ حکومت سے وصول کیا جاتا تھا لیکن اب وزیراعظم بھی اپنے گھر میں بھی سارا خرچہ خود اٹھاتے ہیں سوائے سیکیورٹی کے کوئی اور خرچ سرکاری خزانے سے نہیں لیتے حتیٰ کہ ان کے گھر تک بننے والی سڑک کے پیسے بھی سرکاری خزانے سے نہیں لیے گئے۔