• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

افغانستان کی صورتحال پر امریکا کا پاکستان، بھارت، چین اور روس سے رابطہ

شائع August 17, 2021
اینٹونی بلنکن اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان اور وہاں پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ - فائل فوٹو:اناطولو ایجنسی
اینٹونی بلنکن اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان اور وہاں پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ - فائل فوٹو:اناطولو ایجنسی

امریکا نے پاکستان سمیت نصف درجن دیگر ممالک سے رابطہ کیا ہے جس کے بارے میں اس کا خیال ہے کہ وہ افغانستان کی صورت حال پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

پاکستان، چین، روس، بھارت اور ترکی کے وزرائے خارجہ اور برطانیہ کے سیکریٹری خارجہ ان اعلیٰ سفارتکاروں میں شامل تھے جن سے امریکی سیکریٹری خارجہ اینٹونی بلنکن نے رابطہ کیا۔

انہوں نے نیٹو کے سیکریٹری جنرل اور یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندوں سے بھی بات کی۔

خیال رہے کہ پاکستان کی افغانستان کے ساتھ 2 ہزار 252 کلومیٹر طویل سرحد ہے جبکہ چین کی واخان راہداری کے ساتھ ایک چھوٹی لیکن حساس سرحد افغانستان کے ساتھ منسلک ہے۔

روس اور افغانستان کے درمیان سرحد نہیں تاہم 1989 میں جنگ زدہ ملک سے اپنی فوجوں کے انخلا کے بعد سے افغان باغیوں کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر چکا ہے۔

مزید پڑھیں: طالبان بنیادی حقوق کا احترام کریں گے تو امریکا انہیں تسلیم کرلے گا، انٹونی بلنکن

ترکی نے بھی روایتی طور پر افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کر رکھے ہیں اور برطانیہ کا بھی وہاں کچھ اثر و رسوخ ہے۔

اس کے علاوہ یورپی یونین نے افغانستان کے ساتھ اقتصادی امداد فراہم کرنے میں امریکا کے ساتھ شراکت داری کی اور وہاں امریکا کی فوجی موجودگی کی حمایت کرتا رہا ہے۔

چین سے رابطے میں امریکا نے اپنے خدشات کا اظہار کیا کہ بیجنگ خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے افغانستان سے امریکا کے انخلا کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

امریکی پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں مسائل بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان تعاون کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی طرح چین بھی خطے میں مذہبی شورش نہیں چاہتا کیونکہ اس سے سنکیانگ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

واشنگٹن کا خیال ہے کہ بھارت، افغانستان میں بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے جہاں وہ مختلف مقامات پر اثر و رسوخ رکھتا ہے۔

تاہم واشنگٹن میں پالیسی سازوں اور اسکالرز نے بارہا کہا کہ ان میں سے کوئی بھی ملک افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی گہرائی سے مطابقت نہیں رکھتا۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن دونوں انتظامیہ نے عوامی سطح پر طالبان کے ساتھ فروری 2020 کے امن معاہدے کو حتمی شکل دینے میں پاکستان کی حمایت کو تسلیم کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے لوگوں کے انخلا میں مدد کررہے ہیں، وزیر خارجہ

مزید یہ کہ واشنگٹن افغانستان میں اثر و رسوخ کے لیے بھارت اور پاکستان کے درمیان جدوجہد سے آگاہ ہے اور چاہتا ہے کہ دونوں ممالک اپنی دشمنی سے حساس علاقے میں پہلے سے کشیدہ صورتحال کو مزید کشیدہ نہ ہونے دیں۔

اس سلسلے میں اینٹونی بلنکن نے پیر کے روز اپنے بھارتی اور پاکستانی ہم منصبوں سے ٹیلی فونک رابطہ کیا۔

وزیر خارجہ کا اینٹونی بلنکن سے افغانستان صورتحال پر تبادلہ خیال

سیکریٹری اینٹونی بلنکن کی کال کے بعد امریکی محکمہ خارجہ نے دو بیانات جاری کرتے ہوئے کہا کہ 'سیکریٹری اینٹونی بلنکن نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے بات کی'۔

سیکریٹری اینٹونی بلنکن اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان اور وہاں پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔

ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان، افغانستان میں امن و استحکام کی کوششوں کو فروغ دینے کے لیے امریکا سمیت دیگر بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ قریبی رابطے میں رہے گا۔

وزیر خارجہ نے زور دیا کہ ایک جامع سیاسی حل ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے، افغانستان کے لیے امریکا کے معاشی تعاون کا تسلسل بھی انتہائی اہم ہے۔

اس کے علاوہ بتایا گیا کہ شاہ محمود قریشی نے اینٹونی بلنکن کو پاکستان سے سفارتی مشنز اور بین الاقوامی اداروں کے عملے اور دیگر افراد کو افغانستان سے نکالنے میں سہولت کاری کے حوالے سے پاکستان کی کوششوں سے آگاہ کیا۔

بھارت سے رابطہ

امریکی سیکریٹری خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق سیکریٹری اینٹونی بلنکن نے 'بھارتی وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر سے افغانستان اور وہاں کی بدلتی ہوئی صورتحال کے بارے میں بھی بات کی'۔

اس کے باوجود بھارت نے پاکستان کے ساتھ اپنی کشیدگی کو کم کرنے کی کوئی علامت ظاہر کی اور پیر کو اس نے پاکستان کو ایک مرتبہ پھر افغان صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی بحث میں حصہ لینے سے روک دیا۔

بھارت سلامتی کونسل کے موجودہ بھارتی صدر نے اشرف غنی کی حکومت کے سفیر کو ہنگامی اجلاس سے خطاب کی اجازت دی۔

پاکستان اور افغانستان دونوں نے اپنی درخواستیں یو این ایس سی کے رول 37 کے تحت جمع کرائی تھیں جو ایک غیر رکن کو کونسل سے خطاب کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

دونوں موجودہ کونسل کے ممبر نہیں ہیں جس کے پانچ مستقل اور دس غیر مستقل ارکان ہیں۔

مزید پڑھیں: طالبان کے ساتھ ‘دوستانہ تعلقات’ کیلئے تیار ہیں، چین

اس سے قبل بھارت نے ایران کو بھی ایک سیشن سے خطاب کرنے سے روک دیا تھا۔

ایسا کرتے ہوئے بھارت نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کی افغانستان پر بین الاقوامی اتحاد کی اپیل کو بھی نظر انداز کیا تھا۔

اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ایک ہو کر کھڑے ہوں۔

انہوں نے اقوام پر زور دیا کہ وہ افغان مہاجرین کو قبول کرنے اور ملک بدری کو روکنے کے لیے آمادگی ظاہر کریں۔

ہنگامی اجلاس سے اپنے خطاب میں اقوام متحدہ کے سربراہ نے اقوام پر زور دیا کہ وہ اس تقسیمی انداز سے گریز کریں اور انہیں یاد دلایا کہ افغانستان کی آج کی صورت حال میں پوری عالمی برادری کے تعاون کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'آئندہ چند روز اہم ہوں گے، دنیا دیکھ رہی ہے، ہم افغانستان کے لوگوں کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتے اور نہ ہی چھوڑ سکتے ہیں'۔

بعد ازاں اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے نیویارک میں نیوز بریفنگ کے دوران بھارت پر تنقید کی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'بھارتی تردید انتہائی افسوسناک ہے، ہمیں یقین ہے کہ افغانستان کی تقدیر میں اس اہم موڑ پر پاکستان کی شراکت اہم ہے'۔

منیر اکرم نے کہا کہ بھارت کی جانبدارانہ اور رکاوٹ پر مبنی کارروائیاں پاکستان سے نفرت کی عکاسی کرتی ہیں۔

انہوں نے بھارت پر الزام لگایا کہ وہ 'افغانستان میں تنازع جاری رکھنے اور افغانستان سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی سرپرستی جاری رکھنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے'۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024