نورمقدم قتل کیس: تھراپی سینٹر کے مالک سمیت 6 ملزمان کا ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
اسلام آباد پولیس نے نور مقدم قتل کیس میں تفتیش کے سلسلے میں رات گے چھاپے مارے اور فزیوتھراپی سینٹر کے مالک سمیت مزید 6 افراد کو گرفتار کرلیا۔
پولیس کے مطابق گرفتار افراد میں زخمی امجد بھی شامل ہے، جن کو ملزم ظاہر ذاکر نے چھری مار کر زخمی کیا تھا، ان کا گزشتہ ہفتے بھی بیان ریکارڈ کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: نور مقدم کیس: ڈی این اے، فنگر پرنٹس قتل میں ظاہر جعفر کی شمولیت ظاہر کرتے ہیں، پولیس
امجد کو شدید زخمی ہونے کی وجہ سے پولیس نے ان کی گرفتاری التوا میں رکھی تھی۔
پولیس نے بتایا کہ 6 ملزمان پر شواہد چھپانے کا الزام ہے۔
بعد ازاں پولیس نے گرفتار تھراپی سینٹر کے مالک سمیت تمام 6 ملزمان کو جوڈیشل مجسٹریٹ شہزاد خان کی عدالت میں پیش کیا۔
تفتیشی افسر نے مؤقف اپنایا کہ ملزمان سے تحقیقات کرنی ہے اور دو دن بعد انہیں رہا کر دیں گے، اس موقع پر وکیل صفائی نے کہا کہ تھراپی سینٹر کے مالک ذیابطیس کے مریض ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے مؤکل کو تحقیقات کے لیے بلایا گیا تو پیش بھی ہوئے، پھر بھی انہیں گرفتا کیا گیا ہے، یہ پہلا کیس ہے، جس میں گواہان کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔
ڈان ڈاٹ کام کو دستیاب عدالت کے حکم نامے کی نقل کے مطابق ظہور بھی نور مقدم کے قتل کے بعد ملزم ظاہر کے والدین سے رابطے میں تھا اور اس کے نتیجے میں تھراپی کی ٹیم کو جائے وقوع بھیج دیا گیا تھا۔
ظہور کے وکیل نے کہا کہ ملزم ظاہر جعفر نے ہماری موجودگی میں اعتراف کیا کہ نور کے ساتھ دو سال سے دوستی تھی، ظاہر جعفر نے اپنے ملازمین کو کسی کو گھر میں آنے سے منع کیا تھا اور ظاہر نے بتایا کہ نور نے شادی کرنے سے منع کیا تو میری ان سے لڑائی ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: نورمقدم قتل کیس: ملزم ظاہر کے والدین کے عدالتی ریمانڈ میں مزید توسیع
وکیل کا کہنا تھا کہ ملزم نے کہا کہ لڑائی ہونے کی وجہ سے میں نے نور کو چھری ماری، نور کو قتل کرنے کے بعد ظاہر نے والدین کو اطلاع دی۔
جوڈیشل مجسٹریٹ نے بتایا کہ میری سمجھ سے باہر ہے کہ یہ لوگ اس قتل میں کس طرح ملوث ہیں۔
ملزمان نے کہا کہ پچھلے 4 دن سے تھانے میں بیٹھے ہیں اور کوئی تفتیش نہیں ہورہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب بھی بلایا تھانے میں پیش ہوئے ہیں، جس پر تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ ملزمان اگر بے قصور ہوئے تو دو دن بعد رہا کر دیا جائے گا۔
ڈیوٹی جج نے ملزمان کا ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا۔
کیس کا پس منظر
خیال رہے کہ 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔
ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی اور مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت قتل کے الزام میں درج اس مقدمے کے تحت ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا۔
اپنی شکایت میں شوکت مقدم نے بتایا تھا کہ وہ 19 جولائی کو عیدالاضحٰی کے لیے ایک بکرا خریدنے راولپنڈی گئے تھا جبکہ ان کی اہلیہ اپنے درزی سے کپڑے لینے گئی تھیں اور جب وہ دونوں شام کو گھر لوٹے تو ان کی بیٹی نور مقدم گھر سے غائب تھیں۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ مذکورہ لڑکی کا موبائل فون نمبر بند تھا اور اس کی تلاش شروع کی گئی، کچھ دیر بعد نور مقدم نے اپنے والدین کو فون کر کے بتایا کہ وہ چند دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہیں اور ایک یا دو دن میں واپس آ جائیں گی۔
یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل: مشتبہ ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں دو دن کی توسیع
شکایت کنندہ نے بتایا کہ اسے بعد میں ملزم کی کال موصول ہوئی جس کے اہل خانہ سابق سفارت کار کے جاننے والے تھے، جس میں ملزم نے شوکت مقدم کو بتایا کہ نور مقدم اس کے ساتھ نہیں ہے۔
20 جولائی کی رات تقریباً 10 بجے لڑکی کے والد کو تھانہ کوہسار سے کال موصول ہوئی جس میں اسے بتایا گیا کہ نور مقدم کو قتل کردیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق پولیس بعد میں شکایت کنندہ کو ظاہر جعفر کے گھر سیکٹر ایف -7/4 میں لے گئی جہاں اسے پتہ چلا کہ اس کی بیٹی کو تیز دھار ہتھیار سے بے دردی سے قتل کیا گیا ہے اور اس کا سر قلم کردیا گیا ہے۔
اپنی بیٹی کی لاش کی شناخت کرنے والے شوکت مقدم نے اپنی بیٹی کے مبینہ قتل کے الزام میں ظاہر جعفر کے خلاف قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا کا مطالبہ کیا ہے۔