نور مقدم کیس: ڈی این اے، فنگر پرنٹس قتل میں ظاہر جعفر کی شمولیت ظاہر کرتے ہیں، پولیس
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ملزم ظاہر جعفر کے ڈی این اے ٹیسٹ اور فنگر پرنٹس، نور مقدم کے قتل میں ملزم کی شمولیت ظاہر کرتے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ ایک فوٹیج کے فوٹوگرامیٹری ٹیسٹس کیے گئے جس میں نور مقدم کو اپنی جان بچانے کی کوشش کرتے اور ملزم کو ان کا تعاقب کرتے دیکھا گیا تھا، ٹیسٹس سے تصدیق ہوئی کہ ویڈیو حقیقی ہے۔
یہ فوٹیج پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی، لاہور کو بھیجی گئی تھی تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ ویڈیو حقیقی ہے یا نہیں۔
ایک سینئر پولیس افسر نے ڈان کو بتایا کہ تفتیش کاروں نے ملزم کے گھر کے پڑوس میں نصب سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج حاصل کی تھی جس سے معلوم ہوا کہ متاثرہ خاتون نے اپنی جان بچانے کی کوشش میں گھر کی پہلی منزل سے چھلانگ لگائی اور دروازے تک بھاگ کر گئی تھیں لیکن دروازے کو لاک کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم کے والدین کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
انہوں نے کہا کہ اس کے فوراً بعد متاثرہ خاتون نے گارڈ کے کمرے میں پناہ لی لیکن ملزم نے دروازہ توڑا اور انہیں گھسیٹ کر گھر کے اندر لے گیا۔
مزید برآں، انہوں نے کہا کہ قتل کے ہتھیار کے طور پر استعمال کی گئی چھری سے جمع کیے گئے اور جائے وقوع پر موجود خون کے دھبے بھی مقتولہ کے خون سے میچ کرگئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ قتل میں استعمال ہونے والے ہتھیار پر موجود فنگر پرنٹس بھی ملزم کے فنگر پرنٹس سے میچ ہوگئے۔
پولیس نے یہ انکشاف بھی کیا کہ مالی، جو واردات کے وقت گھر میں موجود تھا اس نے تحقیقات کے دوران تصدیق کی کہ اس نے مقتولہ کو پہلی منزل سے چھلانگ لگاتے ہوئے دیکھا تھا اور ویڈیو فوٹیج میں بھی یہی دیکھا گیا۔
مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: 'نئی تفصیلات، کردار' سامنے آنے کے بعد ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں ایک بار پھر توسیع
پولیس افسر کے مطابق مالی نے تفتیشی حکام کو بتایا تھا کہ انہوں نے مقتولہ کے چیخنے کی آوازیں بھی سنی تھیں، جب انہیں گھر میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور وہ روتے ہوئے مدد طلب کررہی تھیں۔
متعدد کوششوں کے باوجود میڈیا ڈائریکٹر اور سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ڈاکٹر سید مصطفیٰ تنویر سے مذکورہ معاملے پر تبصرے کے لیے رابطہ نہیں ہوسکا۔
یاد رہے کہ 27 سالہ نور، سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی صاحبزادی تھیں اور 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش علاقے سیکٹر ایف 7/4 میں واقع گھر سے ان کی لاش برآمد ہوئی تھی۔
اسی روز ظاہر جعفر کے خلاف واقعے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا جسے مقتولہ کے والد کی شکایت پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت درج کیے گئے مقدمے میں جائے وقوع سے گرفتار کیا گیا تھا۔