• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

برطانیہ نے افغانستان سے امریکی انخلا کو غلطی قرار دے دیا

شائع August 13, 2021
برطانوی سیکریٹری دفاع بین والیس نے کہا کہ اس طرح سے افغانستان سے انخلا کے نتائج ہم سب بھگتیں گے— فائل فوٹو: رائٹرز
برطانوی سیکریٹری دفاع بین والیس نے کہا کہ اس طرح سے افغانستان سے انخلا کے نتائج ہم سب بھگتیں گے— فائل فوٹو: رائٹرز

برطانیہ نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کو غلطی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ طالبان کے دوبارہ سر اٹھانے سے ملک شدت پسندوں کی افزائش گاہ بن جائے گا جس سے دنیا کو خطرات لاحق ہوں گے۔

برطانوی سیکریٹری دفاع بین والیس نے جمعرات کو اعلان کیا کہ طالبان کی جانب سے مزید علاقوں پر قبضہ کیے جانے کے پیش نظر تقریباً 600 فوجی برطانوی شہریوں کی افغانستان سے انخلا میں مدد کریں گے۔

مزید پڑھیں: طالبان نے ‘شیر ہرات’ کو حراست میں لے لیا، مزید تین صوبائی دارالحکومتوں پر بھی قبضہ

اسکائی نیوز ٹیلی ویژن سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکی افواج کے انخلا کے فیصلے سے زمین پر بہت بڑا مسئلہ ادھورا رہ گیا ہے اور طالبان کو تحریک دے رہا ہے۔

انہوں نے پیش گوئی کی کہ اس انخلا سے القاعدہ کو فائدہ پہنچے گا جنہوں نے 11 ستمبر 2001 کے حملوں سے قبل شدت پسندوں کو پناہ فراہم کی تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ میں بہت پریشان ہوں کیونکہ ناکام ریاستیں اس قسم کے لوگوں کے لیے افزائش گاہ ہیں اور یقیناً القاعدہ واپس آجائے گی۔

بین والیس نے امریکا اور طالبان کے درمیان طے پانے والے دوحہ معاہدے کے بارے میں کہا کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ امریکا کا اس طرح سے انخلا کرنا غلطی ہے جس کے نتائج ہم سب بھگتیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: چند روز کے اندر طالبان افغانستان کے 2 تہائی سے زائد حصے پر قابض

انہوں نے کہا کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے طالبان سے معاہدے کے بعد برطانیہ کے پاس اپنی فوجیں واپس بلانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

برطانوی شہریوں اور عملے کی وطن واپسی میں مدد کے لیے 600 برطانوی فوجی افغانستان بھیجے جا رہے ہیں کیونکہ اس وقت 750 برطانوی شہری افغانستان میں موجود ہیں۔

برطانوی وزیر کے ساتھ ساتھ چند دیگر سیاستدان اور اعلیٰ عسکری قیادت بھی انخلا کے امریکی اقدام کو تنقید کا نشانہ بنا چکی ہے۔

اس سے قبل پارلیمنٹ میں خارجہ امور کی بااثر سلیکٹ کمیٹی کے چیئرمین ٹام ٹوگندھت نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ برطانیہ کا محفوظ انخلا یقینی بنانے کے لیے فوجی دستے بھیجنا مکمل ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

سابق بین الاقوامی ترقیاتی وزیر رورے اسٹیورٹ نے فوج کے انخلا کو امریکا اور برطانیہ کی جانب سے مکمل دھوکا قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے افغانستان میں خانہ جنگی کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا کی اپنے شہریوں کو افغانستان سے فوری نکلنے کی ہدایت

افغانستان میں خدمات انجام دینے والے کنزرویٹو رکن پارلیمنٹ اور سابق فوجی وزیر جانی مرسر نے انخلا کو 'ذلت آمیز' قرار دیا۔

انہوں نے ٹائمز ریڈیو کو بتایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ برطانیہ کی فوج اور ان خاندانوں کے لیے ذلت آمیز ہے جنہوں نے افغانستان میں اپنے پیارے کھوئے لیکن سب سے بڑھ کر یہ افغانستان کے لوگوں کے لیے ایک بہت بڑا المیہ ہے جو کئی سالوں سے اس طرح کے حالات کا سامنا کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس شکست کا انتخاب کیا ہے جو بہت شرمناک ہے۔

یاد رہے کہ امریکا کی جانب سے اپنی اور نیٹو فورسز کو افغانستان سے رواں سال 31 اگست تک نکالنے کا اعلان کیا گیا تھا جس کے بعد سے طالبان کے حملوں میں تیزی آئی ہے، جن پر 20 سال قبل امریکا اور نیٹو اتحاد میں شامل فورسز نے حملہ کرکے ان کی حکومت کابل سے ختم کردی تھی۔

طالبان نے گزشتہ 10 روز میں افغانستان کے بڑے حصے میں کارروائیاں کرتے ہوئے دو تہائی پر قبضہ حاصل کرلیا ہے اور ملک کے 34 میں سے 18 اہم صوبائی دارالحکومتوں پر قابض ہوچکے ہیں۔

طالبان کی پیش قدمی تیزی سے جاری ہے اور ان کا رخ مرکزی دارالحکومت کابل کی جانب ہے، دوسری جانب اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے عالمی طاقتیں قطر کے شہر دوحہ میں افغان فریقین کے علاوہ پاکستان اور دیگر ممالک کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہیں اور طالبان پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی پیش قدمی کو روکیں۔

واضح رہے کہ بین الاقوامی میڈیا پر ایسی رپورٹس موجود ہیں کہ طالبان جنگجوؤں کی پیش قدمی کے باعث عوام نے متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی شروع کردی ہے اور ان کا رخ کابل کی جانب ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024