چمن بارڈر پر افغان مظاہرین کا پاکستانی سیکیورٹی فورسز سے تصادم
کوئٹہ: افغانستان کے ساتھ اہم تجارتی سرحدی گزرگاہ کی طالبان کی جانب سے بندش کے بعد پاکستانی حدود میں پھنسے سیکڑوں افغان شہریوں کی سیکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ تصام ہوا۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایک پاکستانی عہدیدار نے بتایا کہ صحرائی گرمی میں چمن اسپن بولدک کراسنگ سے افغانستان میں داخل ہونے کے منتظر ایک 56 سالہ افغان مسافر کی دل کے دورے سے موت ہونے کے بعد حالات کشیدہ ہوئے۔
احتجاجی مظاہرین متوفی کی لاش لے کر حکومت پاکستان کے ایک مقامی سرکاری دفتر پہنچے اور سرحد کھولنے کا مطالبہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں:طالبان نے چمن میں پاکستان کے ساتھ سرحد بند کردی
اس موقع پر کچھ افراد نے مشتعل ہو کر سیکیورٹی فورسز پر پتھراؤ شروع کردیا جنہوں نے جواب میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے شیل برسائے تاہم کسی کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ملی۔
چمن بارڈر خشکی سے گھرے افغانستان میں داخلے کی دوسری مصروف ترین گزرگاہ اور پاکستانی ساحلوں تک مرکزی تجارتی راستہ ہے۔
طالبان نے امریکی فوج کے انخلا کے پیشِ نظر شروع کیے گئے بڑے حملوں کے دوران گزشتہ ماہ اس سرحدی گزرگاہ پر قبضہ کیا تھا اور پاکستان کے افغانوں کے لیے بغیر ویزا سفر کی اجازت ختم کرنے پر احتجاجاً 6 اگست کو اسے بند کیا گیا۔
طالبان مطالبہ کررہے ہیں کہ پاکستان، افغان شناختی کارڈ یا مہاجر کارڈ پر افغان شہریوں کو سرحد پار کرنے کی اجازت دے۔
مزید پڑھیں: طالبان کا چمن سے ملحقہ افغان سرحد پر قبضہ کرنے کا دعویٰ
جنگجوؤں نے حالیہ ہفتوں کے دوران تیزی سے افغانستان کے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا ہے جس میں ایران اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ اہم سرحدی گزرگاہیں بھی شامل ہیں جو اب عسکری گروہ کی آمدن کا بڑا ذریعہ ہیں۔
طالبان کے قبضے سے قبل 900 ٹرکس روزانہ چمن-اسپن بولدک سرحد سے گزرتے تھے۔
بغیر ویزا سفر کے لیے پاکستان کے ساتھ سرحد کھولنے سے نہ صرف طالبان کو عام افغانوں کی حمایت بلکہ پاکستان کے علاقوں میں جانے کا راستہ بھی ملے گا۔