آئی ایم ایف سے 23 اگست کو 2.77 ارب ڈالر موصول ہوں گے، وزیرخزانہ
وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے بورڈ کی جانب سے مختص 650 ارب ڈالرکے پیکیج میں سے پاکستان کو 2.77 ارب ڈالر کی معاونت ہوگی جو 23 اگست کو اسٹیٹ بینک کے اکاونٹ میں منتقل ہوجائیں گے۔
سرکاری نیوز ایجنسی اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق اسلام آ باد میں وزیرخزانہ شوکت ترین نے وزیراعظم کے معاون خصوصی وقار مسعود کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کے بورڈ نے تمام ممالک کے لیے 650 ارب ڈالرکے جس پیکج کا اعلان کیا تھا، اس میں سے پاکستان کو4.3 فیصد کے تناسب سے 2.77 ارب ڈالرکی معاونت ملے گی جو 23اگست کو اسٹیٹ بینک کے اکاونٹ میں منتقل ہوجائیں گے۔
مزید پڑھیں: معیشت مستحکم مرحلے میں داخل ہوچکی ہے، گورنر اسٹیٹ بینک
انہوں نے واضح کیا کہ اس معاونت کے لیے کسی قسم کی کوئی شرط عائد نہیں کی گئی ہے اور اس کے اخراجات بھی صفر ہیں۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ اس معاونت سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں مزید اضافہ ہوگا اور روپے کی قدر پر بھی اثر پڑنا چاہیے، جو خوش آئند امر ہے، پاکستان سمیت دیگر ممالک کی معاونت پر ہم آئی ایم ایف کے بورڈ کے شکرگزار ہیں اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کی شرائط نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی طرف سے ملنے والی نئی معاونت کا بہترین استعمال کیا جائے گا، معیشت مستحکم ہوئی اور پائیداریت میں پیش رفت ہوئی ہے، اس معاونت کو انہی مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے وفاقی بجٹ میں جن اقدامات کا اعلان کیا تھا، اس کے بہتر نتائج سامنے آئے ہیں، مالی سال کے پہلے ماہ میں محصولات میں بڑھوتری ہوئی ہے، وہ یہی بتا رہی ہے کہ بہتری آئی ہے۔
صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ معاشی استحکام اور پائیداری پاکستان اور آئی ایم ایف دونوں کے اہداف ہیں تاہم ان اہداف کے حصول کے طریقہ کار میں فرق ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے بجلی کے نرخ بڑھانے اور انکم ٹیکس میں اضافہ کرنے کا کہا تھا لیکن ہم کہتے تھے کہ ٹیرف بڑھانے سے نہ صرف عام آدمی بلکہ صنعتوں پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: جولائی میں ترسیلات زر میں 2 فیصد کمی رپورٹ
وزیرخزانہ نے کہا کہ آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی وجہ سے 850 ارب روپے کی ادائیگی مؤخر ہوگئی ہے تاہم ریٹیل کے شعبے میں ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
آئی ایم ایف پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے تین ماہ کا وقت مانگا تھا، جس کا پہلا مہینہ مکمل ہو چکا ہے، اس دوران حکومت نے جو اقدامات کیے تھے اس کے نتائج کااندازہ مالی سال کے پہلے ماہ میں محصولات میں ہدف سے 24 فیصد زائد اضافے سے بھی ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجلی کا ٹیرف معقول بنانے پر کام ہو رہا ہے اور ساتھ ہی پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کاسلسلہ بھی چل رہا ہے، آئی ایم ایف کو کامیاب پاکستان پروگرام کے حوالے سے بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔
شوکت ترین نے کہا کہ کامیاب پاکستان ملک کے غریب اورپسماندہ طبقات کے لیے شروع کیا گیا ہے، وزیراعظم عمران خان اس پروگرام کو کامیابی سے آگے بڑھانے میں خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں، اس پروگرام سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور ہر صورت کامیاب بنائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ مہنگائی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بنیادی افراط زر کی شرح 6.95 فیصد ہے، اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں میں اضافہ ضرور ہوا ہے لیکن عالمی مارکیٹ میں بھی ان اشیا کی قیمتیں بڑھی ہیں۔
مزید پڑھیں: وفاقی وزارت خزانہ میں 136 ارب 82 کروڑ روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مختلف قسم کی غذائی اشیا درآمدکر رہا ہے، اس لیے عالمی مارکیٹ کی قیمتوں کے اثرات مقامی منڈیوں پر بھی پڑ رہے ہیں تاہم حکومت مہنگائی کے خاتمے کے لیے جامع اقدامات کررہی ہے اور وزیراعظم عمران خان نے بھی اس حوالے سے ہدایات جاری کی ہے۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے مڈل مین کا خاتمہ کیا جا رہا ہے اور کارٹیلائزیشن کے خاتمے کے لیے بھی سخت اقدامات کیے جارہے ہیں۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس وقت حالات ہمارے حق میں نہیں ہیں مگر اس کے باوجود پاکستان نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ اقدامات کر رہا ہے۔