وہ جشن آزادی۔ ۔ ۔
مسلم، ہندو، سکھ، عیسائی، آپس میں ہیں سارے بھائی
یہ میرے اس ادھورے ترانے کا مصرع ہے جو میں نے 14، 15 سال کی عمر میں لکھنے کی کوشش کی تھی۔ یہ جذبہ تھا اپنے ملک کے لیے کچھ کرنے کا یا شاید بس ’محبوب‘ سے محبت کے اظہار کی ایک معصوم سی کوشش تھی۔
یہ قصہ ہے 1980ء کی دہائی کی ابتدا کا۔ وہ عرصہ جب جنرل ضیاالحق کا مارشل لا پوری طرح مستحکم ہوچکا تھا، اور اس ’جوان مارشل لا‘ کے سائے میں میرا بچپن لڑکپن کے سانچے میں ڈھل چکا تھا۔
میں آج بھی اپنے نامکمل ترانے کا مصرع یاد کرتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ مذہبی شدت پسندی اور انتہا پسندانہ رجحانات کی پہچان قرار پانے والے اس دور میں ہوش سنبھالنے والا لڑکا غیر مسلم پاکستانیوں کو اپنے ترانے میں ’بھائی‘ کہہ کر کیسے لے آیا؟ پھر جوں ہی اپنے کنبے کے کشادگی لیے ماحول پر نظر جاتی ہے تو میری حیرانی دُور ہوجاتی ہے۔
اس گھرانے میں مسلم تاریخ اور اس کی شخصیات کا ذکر پوری عقیدت، محبت اور اپنائیت کے ساتھ ہوتا تھا۔ دین اور اپنی مذہبی روایت سے بڑی مضبوط جڑت تھی، لیکن دیگر مذاہب اور ان کے ماننے والوں کے لیے ذرا بھی نفرت نہیں تھی۔ اس کشادگی اور توازن نے میرے جذبات کی بنت سے یہ ترانہ تخلیق کرنے کی کوشش کی تھی، جس کا ٹیپ کا مصرع غالباً تھا ’سب کا ہے یہ پاکستان‘۔
جہاں تک یادداشت ساتھ دے رہی ہے یہ ترانہ 13 اگست کی رات کو لکھنے کی کوشش کی گئی تھی، صبح کی طرف تیزی سے بڑھتے لمحوں کے دوران، حب الوطنی اور جوش سے بھرے دل سے ٹوٹے پھوٹے مصرعے ڈائری پر اتر رہے تھے، اس وقت آرزو یہ تھی کہ یومِ آزادی کا سویرا آنگن میں اترے تو میرے ہاتھوں میں اسے پیش کرنے کے لیے کچھ تو ہو!
جشنِ آزادی منانے کا جوش میرے ہی سینے میں لہریں نہیں مار رہا تھا بلکہ ہر سو یہی عالم تھا۔ جنرل ضیا کے دامن پر جتنے بھی داغ ہوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ سرکاری تقریبات، اخبارات کی خصوصی اشاعتوں اور حکومتی عمارتوں پر قومی پرچم لہرا دینے کی رسومات کے ساتھ یہ دن سرکاری تعطیل کی سرشاری کے سوا پھیکے پن سے گزر جاتا تھا۔ وجوہات جو بھی ہوں، لیکن ضیا الحق کی حکومت نے یہ دن شاندار طریقے سے منانے کی جو مہم چلائی اس کا حیران کن ردِعمل سامنے آیا۔ جشنِ آزادی کے ان رنگ اور روشنی سے بھرے لمحوں میں جانے سے پہلے ایک نظر اس دور کی جذباتی اور فکری فضا پر ڈالتے ہیں۔
دل مایوسی اور خدشات سے بھرے تھے۔ لگ بھگ ایک عشرے قبل 1971ء میں پاکستان دو ٹکڑے ہوچکا تھا، ہم نے شرمناک شکست کے المیے کا سامنا کیا تھا، پھر قوم نے بھٹو سے امید باندھی لیکن امید بر نہیں آئی، خاص طور پر سندھ میں ہونے والا لسانی فساد اپنے پیچھے ’کیا اس لیے بنایا تھا پاکستان؟‘ کا کڑوا سوال چھوڑ گیا تھا۔ پھر جمہوری حکومت کی برطرفی اور بھٹو کی پھانسی کے بعد قومیتوں کا شدت سے پرچار یاسیت کی سیاہی بڑھائے دیتے تھے۔
واضح کردوں کہ جو منظرنامہ پیش کر رہا ہوں وہ شہری سندھ کا ہے۔ اس ثقافتی زون کے رہنے والوں کے اجداد نے تحریکِ پاکستان میں مؤثر ترین کردار ادا کیا اور تقسیم کے بعد پاکستان آکر بسنے والی ان کی اولادوں نے ایوب خان کی آمریت سے سقوط ڈھاکا تک ملک پر گزرنے والا ہر المیہ براہِ راست سہا، چنانچہ پاکستان کے حوالے سے ان کی حساسیت قابلِ فہم ہے۔ اس وقت میرے اردگرد موجود پختہ عمر کے لوگوں میں قیامِ پاکستان اور ملک کے وجود پر سوال اٹھانے کا رجحان عام ہوچکا تھا، یہ ٹوٹے دل کی صدائیں تھیں۔
ایسے میں پاکستان ٹیلی ویژن سے ایک قسط وار ڈراما نشر ہونا شروع ہوا ’تعبیر‘۔
’اتنی قربانیاں دی گئی ہیں پاکستان کے لیے!۔۔۔ یہ ڈراما دیکھ کر تو میں محب وطن ہوگیا‘۔
میرے پڑوسی محمد حسین بھائی کے ان الفاظ کا ساتھ ان کی بڑی بڑی آنکھیں بھی دے رہی تھیں۔ اس ڈرامے کے مناظر نے جانے کتنی آنکھوں سے دل میں اتر کر ماہیت قلب کردی۔ یہ ڈراما 1857ء کی جنگِ آزادی سے قیام پاکستان تک پھیلی تاریخ سمیٹے ہوئے تھا۔ ٹی وی کے پردے پر نمودار ہونے والی ’تعبیر‘ کی ہر قسط تحریکِ پاکستان کے بارے میں شعور تو اجاگر کرتی ہی ساتھ سوئے ہوئے جذبوں کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیتی، ڈراما دیکھتے ہوئے کبھی رگوں میں انگارے سیال ہوکر دوڑنے لگتے اور کبھی آنکھیں چھلک پڑتیں۔
شاید اس ڈرامے کے بھی اثرات تھے۔ اپنی مایوسی سے بے حال پاکستانیوں میں اس مایوسی کو دندان شکن جواب دینے کی تڑپ، پاکستان کے خلاف باتیں کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دینے کی لگن، اپنے وطن سے عشق کے اظہار کے لیے بے تابی۔۔۔ یا ان سب کیفیات کا آہنگ۔ جو بھی تھا اس 14 اگست کو لگ رہا تھا جیسے پاکستان آج ہی وجود میں آیا ہے۔
فضا سبز اور سفید رنگوں سے رچی تھی، جیسے ہر جگہ کی ہریالی ہماری بستیوں میں اتر آئی ہو، چاند نے سب کی سب چاندنی ہماری گلیوں میں انڈیل دی ہو۔ میں نے اس سے پہلے کبھی کسی بھی موقع پر گلیوں محلوں، چوراہوں اور گھروں کو ایسا سجا سنورا نہیں دیکھا تھا۔ کوچہ کوچہ دلہن بنا ہوا تھا۔
شاید ہی کوئی گھر، عمارت، چوک، کھمبا ہو جس پر سبز ہلالی پرچم نہ لہرا رہا ہو، سائیکلوں، موٹرسائیکلوں، کاروں اور تانگوں پر بندھے پھریروں کے چاند تارے ہوا کے دوش پر پھڑپھڑارہے تھے۔ گلیوں کی سجاوٹ عارضی طور پر بنے ہوئے دروں اور محرابوں سے شروع ہوتی، جن پر مینارِ پاکستان، مزارِ قائد اور درہِ خیبر کے ماڈل نصب تھے۔ قائدِاعظم، علامہ اقبال اور شہید ملت لیاقت علی خان کی تصاویر ایسے ہر دروازے اور محراب کا لازمی حصہ تھیں۔ گلیوں پر ہری سفید جھنڈیاں یوں صف بہ صف تنی تھیں کہ بھری دوپہر میں بھی زمین پر دھوپ سے زیادہ سایہ تھا۔
اس ساری سجاوٹ میں پیسے کی شان تھی نہ کسی سیاسی مقصد کی رتی برابر آمیزش۔ کہیں حکومت تھی نہ کوئی سیاسی جماعت (جو اس وقت کالعدم تھیں) یہ لوگ تھے، عام لوگ، نوجوان، بچے۔۔۔ ان کا مہکتا خلوص اور وطن سے بے کراں محبت جو قدم قدم پر خوشبو بکھیر رہی تھی۔
سجے بنے قریے آنکھوں کو تراوٹ دے رہے تھے تو قومی نغموں کی گونج سیدھی دلوں میں دھڑک رہی تھی۔ ’سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے‘، ’جیوے جیوے پاکستان‘، ’چاند میری زمیں پھول میرا وطن‘، ’ہم لائے ہیں طوفان سے یہ کشتی نکال کے‘، ’یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے‘، ’ساتھیو، مجاہدو! جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘۔
ہر نغمہ شاعر، موسیقار اور گلوکار کے وطن سے سچے پیار کی سوندھی مٹی میں گندھا ہوا، جس کا لفظ لفظ خون کی روانی کو طوفانی کردے۔ کہیں کسی گھر میں رکھے ٹیپ ریکارڈر سے نغمے پھوٹ رہے ہیں، تو کہیں نکڑوں، ہوٹلوں، چائے خانوں اور پان کی منڈلیوں سے آتی ترانوں کی صدائیں دل گرما رہی ہیں۔ اور کہیں کوئی چھبیلا سائیکل کے کیریئر یا ٹوکری سے ٹیپ ریکارڈر باندھے قومی گیتوں کی سوغات بانٹتا پھر رہا ہے۔
دن ڈھلا، مگر ڈھلا کب، رات تو بس گھڑیوں کی سوئیوں پر اتری، ورنہ ہر سو قمقوں سے دن کا سماں، ہر طرف رنگ اور نور، روشنی میں نہا کر سجاوٹ اور بھی سنور گئی۔ شام ڈھلتے ہی مختلف محلوں میں سماجی تنظیموں اور مقامی نوجوانوں کے زیرِ اہتمام تقریبات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کہیں تقریریں ہورہی ہیں، کہیں بچے اور نوجوان قومی نغمے گارہے ہیں، کسی جگہ کوئز مقابلے ہورہے ہیں تو کسی جگہ تحریکِ پاکستان کو موضوع بنائے کوئی علمی فکری محفل سجی ہے۔
جشن آزادی بھرپور طریقے سے منانے کا یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا اور آج تک جاری ہے۔ لیکن اب کم از کم مجھے اس سب میں وہ معصومیت، خلوص، بے لوث محبت کا بے ساختہ اظہار نظر نہیں آتا۔ اب لاکھوں روپے سے تیار کردہ فلک بوس عمارتیں ڈھک دینے والے پرچم ہیں، چیختے چنگھاڑتے فنکشن ہیں، 14 اگست کے لیے تیار کردہ خصوصی مصنوعات سے سجے اسٹال ہیں مگر وہ گھر گھر سے چونی، اٹھنی، روپیہ، پانچ روپیہ جمع کرکے کی جانے والی سجاوٹ نہیں جس کے ہر پرچم ہر جھنڈی سے عام آدمی کا عشق جھلکتا تھا۔
ہاں، اب وطن سے محبت کے قرینوں میں سائیلنسر نکال کر موٹر سائیکل چلانے اور ہوائی فائرنگ کی گھن گرج سے فضا میں دھواں و بارود اور سینوں میں ڈر بھر دینے کا چلن ہے۔ پتا نہیں پاکستان سے وہ خاموش محبت کرنے والے زیادہ محب وطن تھے یا یہ سماعتیں پاش پاش کرکے اپنی وطن پرستی کا اعلان کرنے والے!
تبصرے (6) بند ہیں