• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

طالبان کا افغانستان کے مزید 3 صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ

شائع August 11, 2021
عسکریت پسند اب تک مذاکرات کی میز پر آنے سے انکار کرتے رہے ہیں—تصویر: اے پی
عسکریت پسند اب تک مذاکرات کی میز پر آنے سے انکار کرتے رہے ہیں—تصویر: اے پی

طالبان نے افغانستان کے مزید 3 صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ حاصل کرلیا جس کے بعد ان کے زیر قبضہ اہم شہروں کی تعداد بڑھ کر 9 طالبان ہوگئی ہے۔

خیال رہے کہ افغانستان کے 34 صوبے ہیں، جن میں سے 9 کے صوبائی دارالحکومتوں پر اس وقت طالبان قبضہ حاصل کرچکے ہیں۔

امریکی خبر رساں ایسوسی ایٹڈ پریس 'اے پی' کی رپورٹ کے مطابق شمال مشرق میں بدخشاں اور بغلان صوبوں اور مغرب میں صوبہ فراہ کے دارالحکومتوں پر قبضے سے پیشگی لہر کو روکنے کے لیے ملک کی مرکزی حکومت پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔

فی الوقت کابل کو پیشگی طور پر براہِ راست کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن طالبان کے مسلسل افغان سیکیورٹی فورسز پر حملے جاری ہیں جو اب بڑی حد تک اپنے طور پر باغیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:طالبان نے افغانستان کے ساتویں صوبائی دارالحکومت پر قبضہ کرلیا

مذکورہ صورتحال پر افغان حکومت اور فوج کا کوئی مؤقف فوری طور پر سامنے نہیں آیا۔

فراہ سے تعلق رکھنے والے ایک رکن اسمبلی ہمایوں شاہی زادہ نے اے پی کو تصدیق کی کہ طالبان ان کے صوبے کے دارالحکومت پر قبضہ کرچکے ہیں۔

دوسری جانب بدخشاں کے ایک رکن اسمبلی حجت اللہ خردمند نے کہا کہ طالبان نے ان کے صوبے پر قبضہ کرلیا ہے۔

علاوہ ازیں ایک افغان عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر نقصان کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ بغلان کے دارالحکومت پر بھی قبضہ ہوگیا۔

اس سے قبل طالبان، جنگ زدہ ملک کے بڑے شہروں میں سے ایک قندوز سمیت 6 دیگر صوبائی دارالحکومتوں پر ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں قبضہ کرچکے تھے۔

مزید پڑھیں: طالبان کا افغانستان کے چھٹے صوبائی دارالحکومت پر قبضہ

20 سال تک جاری رہنے والے مغربی افواج کے مشن اور افغان فورسز کی تربیت اور انہیں بہتر بنانے کے لیے اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد بہت سے افراد کی اس حوالے سے متضاد رائے ہے کہ باضابطہ افواج کیوں زوال پذیر ہوئیں جو کبھی کبھی سیکڑوں کی تعداد میں میدان سے فرار ہوگئے۔

لڑائی بڑی حد تک ایلیٹ فورسز اور افغان فضائیہ کے چھوٹے گروپوں تک محدود ہوگئی ہے۔

طالبان کے کامیاب حملوں نے قطر میں طویل عرصے سے رکے ہوئے مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت میں اضافہ کردیا ہے جو لڑائی ختم کر کے افغانستان کو ایک جامع عبوری انتظامیہ کی جانب لے جاسکتا ہے۔

تاہم عسکریت پسند اب تک مذاکرات کی میز پر آنے سے انکار کرتے رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:امریکا کا طالبان کو طاقت کے ذریعے اقتدار میں آنے پر انتباہ

واضح رہے کہ افغانستان میں امریکا نے 2001 میں پہلی مرتبہ طالبان حکومت کے خلاف حملے شروع کیے تھے، جو نائن الیون حملوں کا نتیجہ تھا۔

تاہم 2 دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بعد گزشتہ برس فروری کو امن معاہدہ کیا تھا جس کی رو سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور افغان حکومت کی طالبان کے ساتھ بات چیت پر اتفاق ہوا تھا۔

افغانستان میں جاری لڑائی میں رواں برس مئی سے ڈرامائی تبدیلی آئی جب امریکا کی سربراہی میں افغانستان میں موجود غیر ملکی افواج کے انخلا کی تاریخ کا اعلان کیا گیا تھا اور رواں مہینے کے اختتام سے قبل انخلا مکمل ہوجائے گا۔

جس کے پیشِ نظر طالبان کی جانب سے پہلے اہم سرحدی علاقوں پر قبضہ کیا گیا اور اب صوبائی دارالحکومتوں کی جانب پیش قدمی جاری ہے جس میں سے 6 کا کنٹرول وہ حاصل کرچکے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024