• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

افسانہ: شہر بانو کے رونے کی آواز اور میری نیند

شائع August 20, 2021

'چک 36 شمالی میں ایک شوہر نے اپنی بیوی کو قتل کردیا۔' اخبار کے اندرونی صفحات میں شائع شدہ ایک خبر۔

یہ واقعہ پرسوں رات کا ہے، اور میں قاتل اور مقتولہ کا پڑوسی ہوں۔ آج صبح کافی دیر تک سونے کے بعد جب میں جاگا تو اخبار میں یہ خبر پڑھی۔ اگر میں اخباری نمائندہ ہوتا تو اخبار کی درج بالا سرخی میں لفظ 'دوسری' کا اضافہ کرتا، کیونکہ زرینہ اشرف کی دوسری بیوی تھی جسے پرسوں رات اس نے قتل کردیا تھا۔

محلے میں اس حوالے سے 2 افواہیں گردش کر رہی ہیں:

پہلی افواہ: زرینہ کہتی تھی کہ یہ مکان اس کے نام کردیا جائے جبکہ اشرف ایک پیدائشی کنجوس آدمی ہے، وہ کسی کو بخار بھی نہیں دے سکتا۔ اس کی کنجوسی کو واضح کرنے کے لیے لوگ درج ذیل واقعہ بھی سناتے ہیں:

واقعہ: اشرف پراپرٹی کا کام کرتا ہے، اِدھر زمین خریدی، اُدھر بیچ دی، روپے پیسے کی اسے کمی نہیں۔ وہ لکھ پتی نہیں بلکہ اب کروڑ پتی ہے، چند برس پہلے جب اس کا باپ گردوں کے مرض میں مبتلا ہوا تو ڈاکٹر نے اسے ہر ہفتے ڈائیلیسز کروانے کا علاج تجویز کیا۔

پڑھیے: افسانہ: ذات

چک 36 شمالی سے 50 کلومیٹر دُور 2 ہسپتال ہیں، ایک سرکاری، ایک پرائیویٹ۔ دونوں میں ایک ایک ڈائیلیسز مشین موجود ہے۔ سرکاری مشین پر علاج کے لیے دس روپے کی پرچی جب کہ پرائیویٹ مشین پر یہی سہولت 6 ہزار روپے میں دستیاب ہے۔ سرکاری مشین پر علاج کے لیے بعض اوقات آپ کو ایک لمبے اور تکلیف دہ انتظار سے گزرنا پڑتا ہے کیونکہ مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

اشرف کا باپ کئی بار انتظار گاہ میں بیٹھے بیٹھے تکلیف کی شدت سے بے ہوش ہوا مگر اس نے مرتے دم تک سرکاری ہسپتال سے علاج کروایا۔

افواہ 2: زرینہ کا شادی سے پہلے ہی رشید سُنارے کے بیٹے کامران سے چکر چل رہا تھا۔

واقعہ: آج سے 4 سال پہلے کامران میٹرک میں دوسری بار فیل ہوا تو اس کے باپ رشید نے اسے اپنے پاس دکان پر بٹھا لیا اور وہ زیورات بنانے کا ہنر سیکھنے لگا۔ روپے پیسے کی کمی نہیں تھی اور جب پیٹ بھرا ہو تو آدمی کو عجیب و غریب خیالات سوجھتے ہیں۔ بس ایسے ہی خیال کے زیرِ اثر وہ زرینہ کے چکر میں پڑگیا۔ دکان سے بہانے بہانے اٹھ کر اس کی گلی میں آجاتا اور اِدھر اُدھر ٹہلتا رہتا۔ پھر ایک روز موبائل نمبرز کا تبادلہ ہوا۔

جب بھی کامران اور زرینہ کا قصہ بیان ہوتا ہے، تب محلے کے تین، چار لوگ ہاتھ کھڑا کرکے درج ذیل جملے ضرور بولتے ہیں:

'جی جی، میں نے خود زرینہ کو ایک پرچی کامران کو دیتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ پچھلی گرمیوں میں دوپہر کی بات ہے۔'

'نہیں نہیں، یہ صبح سویرے کا واقعہ ہے، میں نے خود دیکھا تھا۔'

'نہیں دوپہر کا، گلی سے میں گزر رہا تھا۔ باقی صرف وہ دو تھے۔'

'دوپہر'

'نہیں صبح'

'نہیں'

'ہاں مگر۔۔۔'

دوپہر اور صبح کا وقت طے نہیں ہو پاتا مگر اس بات پر سب ہی متفق ہیں کہ زرینہ نے کاغذ کامران کو دیا تھا اور اس میں موبائل نمبر درج تھا۔ اس کے بعد وہ سارا سارا دن فون پر گفتگو کرتے رہتے تھے۔ شام کو نہر کنارے کانوں سے فون لگائے سب نے کامران کو دیکھ رکھا تھا۔

پڑھیے: اندھیروں کے عادی

محلے کے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر اشرف کی پہلی بیوی پاگل نہ ہوتی تو کامران کی شادی زرینہ سے ضرور ہوجاتی۔

اشرف کی پہلی پاگل بیوی کا قصہ:

اشرف کی ماں کی خواہش تھی کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی کسی ایسی لڑکی سے کرے جو چک 36 کی سب سے خوبصورت لڑکی ہو، رشتہ کروانے والی ماسی زیتون نے سارے چک 36 کی کنواری لڑکیوں کے رشتے اسے دکھائے مگر کافی تلاش بسیار کے باوجود اسے کوئی لڑکی پسند نہ آئی۔ یہاں 2 باتیں قابلِ ذکر ہیں:

پہلی بات: اشرف کا باپ آج سے 30 برس پہلے چک 36 شمالی میں آیا تھا، لوگ اس کے بارے صرف اتنا جانتے ہیں کہ وہ شہر سے ایک روز یہاں آیا اور پھر یہیں کا ہوکر رہ گیا۔ اس کی کریانے کی دکان چک 36 کی مشہور دکانوں میں سے ایک تھی تاہم اشرف نے پراپرٹی کا کام شروع کیا تھا۔ باپ کے مرنے کے بعد اس نے دکان سامان سمیت فروخت کردی تھی۔

دوسری بات: اشرف کا باپ اپنی بیوی کو کبھی بھی گھر سے نہ نکلنے دیتا اور 30 برسوں میں کسی نے بھی اسے محلے کے کسی گھر میں جاتے نہیں دیکھا تھا۔

ان کے گھر میں ٹی وی اور ریڈیو وغیرہ بھی نہیں تھا۔

پھر ایک روز اشرف کی ماں نے مٹھائی کے پیکٹ بناکر محلے کے بچوں میں تقسیم کیے کہ زیتون نے اس کے لیے کسی دوسرے گاؤں میں بہو تلاش کرلی تھی جس کا نام شہر بانو تھا اور وہ اتنی خوبصورت تھی کہ ہاتھ لگانے سے بھی میلی ہوجائے۔

اور دیکھنے والوں نے دیکھا کہ وہ واقعی ایسی ہی خوبصورت تھی۔ اشرف شادی کے بعد شروع کے کچھ دن بہت خوش رہا پھر سنجیدہ ہوگیا، پھر اس نے بول چال تقریبا ًترک کردی۔ کوئی اس سے بات کر رہا ہوتا تو وہ بے دھیانی میں کوئی اور جواب دیتا۔

پڑھیے: افسانہ: چلتی ٹرین میں رُکی ہوئی کہانی

میں چونکہ اشرف کا پڑوسی ہوں اور اگر اس کی پہلی شادی کے بعد کے دنوں کو یاد کروں تو درج ذیل باتیں یاد آتی ہیں:

پہلی یاد: وہ جون کی ایک گرم رات تھی، سارا دن لو چلتی رہی تھی حتیٰ کہ رات کو بھی ہوا منہ کو جھلسا رہی تھی۔ ایسے موسم میں نیند بھلا کہاں آتی ہے، میں ویہڑے میں ٹہلنے لگا، اسی دوران مجھے رونے کی آواز آئی۔ دیوار کے اس پار کوئی رو رہا تھا۔

پھر اشرف کی آواز آئی۔

'میں کہتا ہوں چُپ کرجاؤ، آواز نہیں نکلنی چاہیے تمہاری'

'خدا کے لیے مجھے مت مارو'

'چُپ کرو!'

'میں نے کچھ نہیں کیا'

'بکواس۔۔۔'

'قسم۔۔۔'

'چُپ۔۔۔'

دوسری یاد: اوپر بیان کیے گئے واقعے کے چند روز بعد میں تواتر سے یہ رونا بلکہ اونچی آواز میں رونا سُنتا رہا۔

کئی بار ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی کسی کو شدت سے پیٹ رہا ہے، برتن گر رہے ہیں۔ ایک بار میں نے اونچی آواز میں پوچھا بھی کہ خیریت ہے، کوئی مسئلہ ہے تو مجھے بتائیں۔ میرا ایسا پوچھنے پر آواز رُک جاتی، مگر پھر وہی ریں، ریں۔۔۔

اس روز روز کی لڑائی جھگڑے اور رونے سے میرے اپنے بیوی بچے بہت ڈرے ہوئے تھے، وہ رات گئے تک جاگتے رہتے کہ ابھی وہ رونا دھونا پھر شروع ہوجائے گا۔ میری بیوی کئی بار دن میں شہر بانو کے پاس گئی اور اس سے اِس لڑائی کی وجہ دریافت کی تاہم وہ کچھ نہ بولی۔ مگر مجھے میری بیوی نے بتایا تھا کہ اس کی آنکھوں میں حلقے اور چہرے پر نیل پڑے ہوئے تھے۔

میں خود اِس روز روز کی چیخ وپکار سے تنگ آگیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ میری نیندیں برباد ہوکر رہ گئی تھیں۔ مجھے ٹکڑوں میں نیند آتی اور میں خواب میں بھی شہر بانو کے رونے کی آواز صاف سنتا رہتا تھا۔ شہر کے ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ میں انسومیا کے مرض کا شکار ہوچکا ہوں۔

ایک دن مجھے اشرف گلی میں ملا، سلام دعا کے بعد میں نے کہا کہ، 'اشرف بھائی سب خیریت ہے، آپ کے ہاں رات کو کافی شور شرابہ سنائی دیا ہے۔ برتن بھی ٹوٹنے کی آوازیں آتی ہیں'۔

اشرف نے یہ سُن کر رازدارانہ انداز میں میرے کان میں کہا۔

'دراصل میری بیوی پاگل ہے، کسی کو بتانا مت۔ کیا کروں کچھ سمجھ نہیں آتی۔'

اگرچہ کہ میں نے کسی سے اس بات کا ذکر نہیں کیا مگر چند ہی روز میں ہر دوسرا شخص یہی کہہ رہا تھا کہ اشرف پراپرٹی ڈیلر کی بیوی پاگل ہوگئی ہے۔ اِس کی وجہ کچھ عجیب و غریب واقعات کا وقوع پذیر ہونا تھا۔

پڑھیے: افسانہ : دُور سے آئے ہوئے لوگ

پہلا واقعہ: اشرف کے گھر میں ایک کنواں تھا، میونسپل کمیٹی کا پانی جس روز نہ آتا تو محلے کے لوگ اسی کنویں سے پانی بھرتے، ایک روز بیدے موچی کی بیوی کنویں سے پانی بھر رہی تھی کہ شہر بانو نے اسے پیچھے سے دھکا دے دیا اور وہ آدھی کنویں کے اندر اور آدھی باہر لٹکنے لگی۔ اگر اسی وقت جانی مرغی فروش کی بیوی وہاں نہ پہنچتی تو یقیناً یہ موچی کی بیوی کا آخری دن ہوتا۔

مرغی فروش کی بیوی کا بیان:

'میں نے اس روز جیسے ہی ڈیوڑھی پار کی تو آگے کا منظر بے حد عجیب تھا۔ شہر بانو، شہناز کو پاؤں سے پکڑ کر کنویں میں پھینکنے ہی لگی تھی کہ میں نے دوڑ کر اسے پیچھے ہٹالیا۔ اس وقت اس کی آنکھیں خون کی طرح سرخ تھیں۔ وہ تالیاں بجا بجا کر کہہ رہی تھی، کہ کیسا لگتا ہے کنویں کے اندر، دیکھو دیکھو، تمہارے یار بیٹھے ہیں اندر۔ اندھیرا ہے۔ اندھیرا ہے۔ آنکھیں کھولو سب نظر آئے گا۔ کتنے ہیں اندر؟ ایک، دو یا تین؟'

اس واقعے کے بعد کوئی بھی کنویں پر اکیلا پانی بھرنے نہ جاتا۔

پھر شہر بانو کے گھر والے آئے اور اسے لے کر چلے گئے۔

یہ روز روز کا رونا ختم ہوا تو مجھے پھر سے نیند آنے لگ گئی تھی۔ تاہم یہ سکون کچھ زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکا۔

شہر بانو کے واپس جانے کے 6 ماہ بعد اشرف نے زرینہ سے شادی کرلی، جو آج 2 سال بعد اختتام کو پہنچی کہ وہ قتل ہوچکی ہے۔ ان 2 سالوں میں سوائے لڑائی جھگڑے کے اور کچھ نہیں ہوا۔ میرا انسومیا کا مرض اس قدر بڑھ چکا ہے کہ بعض اوقات ساری ساری رات جاگتا رہتا ہوں۔ دن میں کوئی بھی کام ٹھیک سے نہیں کرپاتا۔

میری بیوی کہتی ہے کہ مجھے آرام سے سوجانا چاہیے مگر مجھے نیند نہیں آتی۔ میں چاہتا ہوں کہ اس مسئلے کا کوئی حل نکلے۔ میں نے بڑی میخ کی مدد سے صحن کی دیوار کھرچ کھرچ کر ایک اینٹ کی سیمنٹ نکال لی ہے۔ جب اشرف اور زرینہ کی لڑائی ہوتی ہے اور مجھے نیند نہیں آتی تو میں وہ اینٹ ہٹاکر سب منظر دیکھتا رہتا ہوں۔

آج یعنی قتل کے 2 روز بعد گاؤں میں پہلی بار ایک ٹی وی چینل والے بھی آئے ہوئے ہیں تاکہ وہ اس قتل کی روداد عوام تک پہنچائیں۔

کیمرا مین اور نمائندے کے گرد لوگوں کا ہجوم ہے۔ ہر شخص ٹی وی پر آنا چاہتا ہے۔ میں خود بھی اس ہجوم کا حصہ ہوں اور پہلی بار ٹی وی والوں کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے میرے ساتھ توقیر ماچھی کھڑا تھا۔ پھر وہ دوڑ کر کہیں چلا گیا، جب 5 منٹ بعد میری اس پر نظر پڑی تو میں نے دیکھا کہ اب اس نے تیل چپڑکر اپنے بال بنا رکھے تھے۔ کُرتے دھوتی کے بجائے شلوار قمیض میں ملبوس تھا۔ ٹی وی پر آنے کے لیے چک 36 شمالی کے لوگوں کی اکثریت بیک وقت ایسے ہی پُرجوش اور سہمی سہمی سی تھی۔

'ناظرین اس وقت ہم چک 36 شمالی میں موجود ہیں، جہاں 2 روز پہلے قتل کی ایک سنگین واردات ہوئی ہے، ایک ظالم شوہر نے اپنی بیوی کو قتل کردیا ہے۔ ہم علاقے کے لوگوں سے اس بارے سوالات پوچھیں گے مگر سب سے پہلے، اس کیس کی تحقیق کرنے والے پولیس آفیسر رب نواز سے بات کرتے ہیں، تو جی رب نواز صاحب آپ کیا کہیں گے اس کیس کے بارے؟'

نمائندے نے انسپیکٹر صاحب سے پوچھا۔

'دیکھیں جی واقعہ آپ کے سامنے ہے، شوہر نے اپنی بیوی کو قتل کردیا ہے، جسے ہم نے حوالات میں بند کردیا ہے۔ باقی تحقیقات کر رہے ہیں، جلد حقائق عوام کے سامنے ہوں گے۔'

'انسپیکٹر صاحب، مجرم نے اپنے اقبالی بیان میں کیا کہا ہے؟'

پڑھیے: افسانہ: ’میں تمہیں اپنا مستقبل تباہ نہیں کرنے دوں گا’

'اس نے بس اتنا کہا ہے کہ اس نے بیوی کا قتل نہیں کیا۔ وہ تو پستول سے بیوی کو صرف ڈرا رہا تھا۔ پھر گولی چل گئی، جو بھی ہے جی، اب سزا تو کاٹنی پڑے گی۔'

'یعنی اس نے اپنی بیوی کو گولی مار دی تھی؟' ٹی وی نمائندے نے کہا۔

'جی پستول سے قتل کیا ہے، وہ اس نے پولیس کو جمع کرادیا ہے، ساتھ 6 گولیاں بھی۔ اقبالِ جرم بھی کر لے گا۔ پہلے پہل سارے مجرم یہی کہتے ہیں کہ انہوں نے قتل نہیں کیا پھر آخر ماننا پڑتا ہے۔ آج نہیں مان رہا تو کل مان جائے گا۔'

'بہت شکریہ انسپیکٹر صاحب، جی تو ناظرین آپ نے کیس انچارج کی گفتگو سُنی، اب ہم آپ کو علاقہ مکینوں سے ملواتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اس قتل کا محرک کیا تھا؟'

توقیر ماچھی اب بالکل نمائندے کے ساتھ کھڑا تھا۔

'جی آپ کچھ بتانا چاہتے ہیں؟' نمائندے نے ماچھی سے پوچھا۔

'جی میں توقیر ہوں، ذات کا ماچھی ہوں، مگر حالات کی وجہ سے آج کل پکوڑوں کی ریڑھی لگا رکھی ہے، دریاؤں کا پانی ہی سکڑتا جارہا ہے۔ پانی نہ ہو تو مچھلی کہاں سے ہوگی۔ دوسرا آج کل مچھلی فارم والے بھی آگئے ہیں لیکن اس مچھلی کا ذائقہ نہیں ہوتا جی۔ اسی لیے میں نے ریڑھی لگالی ہے۔ اللہ نے ہاتھ میں بڑا ذائقہ دیا ہے، ایک بار جو میرے پکوڑے کھاتا ہے، اسے پھر کوئی دوسرے پکوڑے پسند نہیں آتے، میرے بچے کہتے ہیں کہ۔۔۔'

'رُکیے رُکیے، میں آپ سے اشرف کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ ہاں تو کوئی اور صاحب اگر اشرف کے بارے بتانا چاہے، جی آپ۔۔۔'

حق نواز پینٹر آگے بڑھا اور کہا، 'جی اشرف ایک شرابی آدمی تھا۔ روپے پیسے کی اسے کمی نہیں تھی۔ شام کے بعد نشے میں دھت رہتا۔'

'ناظرین یہاں ایک اہم انکشاف ہوا ہے کہ قاتل ایک عادی شرابی تھا اور رات گئے تک شراب نوشی کیا کرتا تھا، تو کیا وہ شروع ہی سے شرابی تھا؟'، نمائندے نے پوچھا۔

پڑھیے: افسانہ: ولی پور کا ملنگ

'نہیں، نہیں، شروع میں تو وہ صرف کنجوس تھا۔ ایک ایک روپے کو بچا کر رکھتا۔ جب اس کی شادی ہوئی تو اس نے شراب نوشی شروع کردی۔ پہلے ماں باپ روکتے، پھر وہ بھی رخصت ہوگئے۔'

'لیکن چک 36 میں اسے شراب ملتی کہاں سے تھی؟'

'شہزاد مسیح لاتا تھا جی'، ہجوم سے ایک آواز آئی۔

'کون شہزاد مسیح؟'، نمائندے نے پوچھا۔

'جی وہ جو لال قمیض پہنے کھڑا ہے'، ایک آواز آئی۔

'ناظرین یہاں ہمارے پاس اس کیس کا ایک اہم کردار سامنے آیا ہے جو قاتل کو شراب مہیا کرتا تھا'، نمائندہ نے بتایا۔

لوگوں نے کھینچ تان کر شہزاد مسیح کو آگے کردیا جو اس اچانک آفت سے گھبرا گیا تھا۔

'شہزاد مسیح آپ کب سے شراب بیچ رہے ہیں؟'

شہزاد مسیح گھبراتے ہوئے گویا ہوا، 'وہ جی میرے پاس اجازت نامہ ہے، میں اپنے لیے منگواتا تھا۔ اشرف مجھ سے زبردستی لے جاتا تھا‘۔

'انسپیکٹر صاحب آپ کے علاقے میں کھلے عام شراب بیچی جا رہی ہے، اس پر آپ کیا کہیں گے؟'، نمائندے نے پاس کھڑے انسپیکٹر صاحب سے سوال کیا۔

'دیکھیں جی ایسا نہیں ہے، اس نوجوان کو ہم ابھی گرفتار کرلیتے ہیں تاکہ یہ آج مسئلہ ہی ختم ہوجائے۔'

یہ کہہ کر انسپیکٹر نے سپاہیوں کو اشارہ کیا جو شہزاد مسیح کو پکڑ کر پولیس وین تک لے گئے۔

'جی کوئی اور صاحب؟'

عطا نائی آگے بڑھا۔

پڑھیے: افسانہ: کنجوس جواری

'جی میں چک 36 شمالی کا نائی ہوں، پچھلے 40 سال سے بال کاٹ رہا ہوں، میری دکان میں سارا دن پورے چک شمالی کی خبریں چلتی رہتی ہیں۔ دیکھیں جی حق کا راہ ہے، سب نے جانا ہے، بات سچ کرنی چاہیے۔ میں اپنے تجربے کے زور پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس قتل کی وجہ رشید سُنارے کا بیٹا کامران ہے، اس کا اشرف کی دوسری بیوی کے ساتھ چکر تھا۔'

'ناظرین جیسا کہ آپ نے ان بزرگ شہری کی زبانی سُنا کہ یہ کوئی ناکام محبت کی کہانی معلوم ہوتی ہے۔ کیا ہم کامران سُنارے سے بات کرسکتے ہیں؟' نمائندہ۔

'جی، جی یہ کھڑا ہے کامران۔ اوئے کامران آگے بڑھ، بات کر'

یہ دیکھیں جی اِدھر، ہاں ہاں یہی کامران ہے۔'

'پھنس گیا ہے سالا!'

'اور چلائے چکر!'

'آہ! بُرائی کا انجام!'

کئی آوازیں آئیں۔۔

کامران کے چہرے سے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس سے خون نچوڑ لیا ہو اور وہ بالکل سفید لٹھے کی طرح ہوگیا تھا۔ ڈر آدمی کا خون نچوڑ لیتا ہے۔

'جی تو آپ کامران ہیں۔ یہ بزرگ کہہ رہے تھے کہ آپ کا مقتولہ کے ساتھ کوئی چکر تھا؟'، نمائندہ

'نہیں جی، یہ بالکل جھوٹ ہے، سراسر الزام ہے مجھ پر۔ لوگوں کو تو بس باتیں بنانی آتی ہیں'، کامران نے کہا۔

'جی یہ دونوں فون پر باتیں کرتے تھے'، ایک آواز آئی۔

پڑھیے: افسانہ : پندرہویں سواری

'نہیں جی یہ جھوٹ ہے، آپ میرا فون کا ریکارڈ چیک کرلیں۔ میری 2 سال سے اس سے بات نہیں ہوئی تھی۔ اس کی شادی کے بعد میں نے اپنا نمبر تبدیل کرلیا تھا۔'

'انسپیکٹر صاحب آپ کیا کہیں گے اس بارے میں'، نمائندے نے انسپیکٹر سے پوچھا۔

'دیکھیں جی اس معاملے کی بھی مکمل چھان بین ہوگی۔ اس نوجوان کو بھی تھانے جانا ہوگا ہمارے ساتھ۔'

یہ کہہ کر انسپیکٹر صاحب نے اشارہ کیا، وہی 2 سپاہی کامران کو بھی پکڑ کر لے گئے اور پاس کھڑی پولیس وین میں بٹھا دیا۔

'انسپیکٹر صاحب آپ کو اس واقعے کی اطلاع کب موصول ہوئی؟'

'جی رات ایک بجے ہمیں اشرف پراپرٹی ڈیلر کے پڑوسی کا فون آیا کہ اس نے گولی چلنے کی آواز سُنی ہے، ہم آدھے گھنٹے میں جائے حادثہ پر پہنچ گئے۔ آگے ویہڑے کے اندر زرینہ کی لاش پڑی تھی اور اشرف پاس ہی بیٹھا رو رہا تھا۔'

'تو کیا ہم اس پڑوسی سے بات کرسکتے ہیں؟'، نمائندہ

سب کی نظریں میری جانب اٹھیں۔

'جی یہ ہیں پڑوسی'، مجھے کسی نے پیچھے سے دھکا دیا اور میں نمائندے کے بالکل سامنے پہنچ گیا۔

'آپ نے گولی چلنے کی آواز کب سنی تھی؟'، نمائندہ

'دراصل بات یہ ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے میں ٹھیک سے سو نہیں سکا۔ مجھے ٹکڑوں میں نیند آتی ہے۔ اس کی وجہ اشرف پراپرٹی ڈیلر ہے۔ وہ اپنی پہلی بیوی پر بھی تشدد کیا کرتا تھا اور دوسری پر بھی۔ پرسوں رات کوئی دو بجے کا عمل ہوگا کہ میں نے گولی چلنے کی آواز سُنی۔ میں نے فون کرکے پولیس کو اطلاع دی جو فوراً یہاں پہنچ گئی، مجھے امید ہے کہ جلد اس کیس کا فیصلہ ہوگا اور اشرف پراپرٹی ڈیلر کو سزا ملے گی آخر دوسروں کی نیندیں حرام کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تلافی جرم ہے۔'

محمد جمیل اختر

پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

rizwan Aug 21, 2021 09:26am
nice
Qamar Aug 21, 2021 03:17pm
آپ کی تحریر بہت اچھی ہے.. ماشاءاللہ

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024