طالبان کی پیش قدمی جاری، افغانستان کے 65 فیصد علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا
طالبان نے افغان سرزمین پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے اور یورپی یونین نے کہا ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے ملک کے 65 فیصد حصے پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق صدر اشرف غنی نے علاقائی طاقتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کی حکومت کا ساتھ دیں جبکہ اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار نے کہا کہ 20 سالوں میں انسانی حقوق کے سلسلے میں جو پیش رفت ہوئی تھی وہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد خطرے میں پڑ گئی ہیں۔
مزید پڑھیں: بھارت نے افغانستان میں اپنا آخری قونصل خانہ بھی بند کردیا، شہریوں کی واپسی
دارالحکومت کابل میں اشرف غنی کے ساتھیوں نے کہا کہ وہ علاقائی ملیشیاؤں سے مدد مانگ رہے ہیں جن کی مدد سے وہ کئی برسوں سے اپنی حکومت قائم رکھنے کی جدوجہد کررہے ہیں جبکہ عوام سے بھی اپیل کی کہ وہ افغانستان کے جمہوری تشخص کا دفاع کریں۔
مقامی رہائشیوں نے بتایا کہ شمالی قصبے مزار شریف اور کابل کے درمیان مرکزی سڑک پر صوبہ سمنگان کے دارالحکومت ایبک کے قصبے میں طالبان اپنا کنٹرول مضبوط تر کر رہے ہیں اور سرکاری عمارتوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔
اس دوران زیادہ تر حکومتی سیکیورٹی فورسز پیچھے ہٹتی دکھائی دے رہی ہیں۔
ایبک میں رہائش کے لیے حالات کے بارے میں پوچھے جانے پر صوبائی ٹیکس آفیسر شیر محمد عباس نے کہا واحد راستہ خود ساختہ نظربندی یا کابل کی راہ لینا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دوحہ: افغانستان پر اقوام متحدہ، پاکستان سمیت دیگر ممالک کے مذاکرات شروع
نو افراد کے خاندان کے واحد کفیل شیر محمد عباس نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ اب کابل میں بھی کوئی محفوظ آپشن نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان ان کے دفتر پہنچے اور کارکنوں کو گھر جانے کو کہا لیکن منگل کو کسی قسم کی لڑائی دیکھی نہ سنی۔
برسوں سے شمالی علاقہ جات ملک کا سب سے پرامن حصہ تصور کیے جاتے تھے لیکن طالبان کی حکمت عملی سے ایسا محسس ہوتا ہے کہ وہ وہ شمال کے ساتھ ساتھ شمال، مغرب اور جنوب میں اہم سرحدی گزرگاہوں پر بھی قبضہ کر کے کابل پر دباؤ بنانا چاہتے ہیں۔
امریکا کی حمایت یافتہ حکومت کو شکست دینے لیے لڑنے والے طالبان کو ایبک میں معمولی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
مزید پڑھیں: ’امریکا، افغان سرحد سے ملحقہ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں پر پاکستان سے بات کررہا ہے‘
یورپی یونین کے ایک سینئر عہدیدار نے منگل کو بتایا کہ طالبان اب 65 فیصد افغان سرزمین پر قابض ہیں، 11 صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرنے کی دھمکی دے رہی ہیں اور کابل کو شمال میں موجو قومی افواج کی روایتی حمایت سے محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حکومت نے ان دیہی آبادیوں سے اپنی فوج واپس بلالی ہے جن کا دفاع ممکن نہیں اور اس کے بجائے زیادہ آبادی والے علاقوں کے دفاع پر توجہ دی جا رہی ہے۔
امریکا سرکاری فوج کی حمایت میں فضائی حملے کرتا رہا ہے لیکن پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے پیر کو کہا ہے کہ اپنے ملک کی حفاظت کرنا افغان فوج کا کام ہے، یہ ان کی جدوجہد ہے۔
طالبان اور سرکاری حکام نے تصدیق کی ہے کہ طلابان نے حالیہ دنوں میں شمال، مغرب اور جنوب میں چھ صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ملک کا دفاع افغان سیکیورٹی فورسز پر منحصر ہے، امریکا
ایک سیکیورٹی عہدیدار نے بتایا کہ صوبہ بغلان کے دارالحکومت پل خمری میں ایبک کے جنوب مشرق میں طالبان نے کابل جانے والی سڑک کے سنگم پر شہر کو بند کر کے سیکیورٹی فورسز کو گھیرے میں لے لیا تھا۔
نیشنل ڈیزاسٹر اتھارٹی کے سربراہ غلام بہاؤالدین جیلانی نے رائٹرز کو بتایا کہ 34 میں سے 25 صوبوں میں لڑائی جاری ہے اور 60ہزار خاندان پچھلے دو ماہ کے دوران بے گھر ہو چکے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کابل میں پناہ کے متلاشی ہیں۔
یورپی یونین کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ حالیہ مہینوں میں تقریباً 4 لاکھ افغانی بے گھر ہوئے اور گزشتہ 10 دنوں کے دوران ایران فرار ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
ایران کی سرحد کے قریب مغربی افغانستان کے صوبے فراہ کے دارالحکومت اور سب سے بڑے شہر فراہ کے ایک رہائشی نے بتایا کہ طالبان نے گورنر کی رہائش گاہ پر قبضہ کر لیا ہے اور وہاں طالبان اور حکومتی فورسز کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے۔
مزید پڑھیں: طالبان کا افغانستان کے چھٹے صوبائی دارالحکومت پر قبضہ
شہریوں نے بتایا کہ طالبان نے شہر کی تمام اہم سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ مشیل بیچلیٹ نے کہا کہ جنگی جرائم اور انسانیت سوز جرائم کے ارتکاب کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں جس میں ہتھیار ڈالن ےوالے سرکاری فوجیوں کو پھانسی دینے کی انتہائی پریشان کن اطلاعات بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لوگ کا ہی خوف بے جا نہیں کہ طالبان کے اقتدار میں آنے سے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران انسانی حقوق سلسلے میں ہونے والی تمام تر پیش رفت رائیگاں چلی جائے گی۔