کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے کنگ فو کے گرینڈ ماسٹر سے ملیے
کوئٹہ کے کوہِ مردار پر شاؤلن کنگ فو کے 54 سالہ گرینڈ ماسٹر کو کاتا (فرضی لڑائی) کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھ کر مجھے وہ پرانی کنگ فو فلمیں یاد آگئیں جو میں اپنے بھائیوں کے ساتھ دیکھا کرتا تھا۔
ہمیں حیرانی ہوتی تھی کہ ہیرو آخر اتنے سارے دشمنوں سے کیسے لڑتا ہے اور ہمیشہ جیت بھی جاتا ہے۔ آج میں گرینڈ ماسٹر مبارک علی شان کو دیکھ کر حیران تھا۔
مبارک علی کے والد اور دادا بھی شی فو (کنگ فو کے ماہر) تھے۔ مبارک علی نے 6 سال کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ تربیت شروع کردی تھی جنہیں یہ فن اپنے والد سے ملا تھا۔
مبارک علی نے ای او ایس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میرے والد قاسم علی پاکستانی فوج میں سپاہی تھے۔ وہ 1971ء کی جنگ میں جنگی قیدی بننے والوں میں شامل تھے‘۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے والد نے 1965ء کی جنگ میں بھی حصہ لیا تھا۔
تقسیم سے پہلے مبارک علی کے دادا، خدا رام کا تعلق برطانوی فوج کی 106 ہزارہ پائینیرز سے تھا۔ انہوں نے برطانوی گُرکھا رجمنٹ سے کمانڈو ٹریننگ بھی حاصل کی ہوئی تھی۔ مبارک علی کا خاندان کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے تعلق رکھتا ہے۔
اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں بہترین کارکردگی دکھانے اور کئی میڈلز اور سرٹیفیکیٹ جمع کرنے کے بعد مبارک علی نے گریجویشن مکمل ہوتے ہی پروفیشنل کنگ فو کی پریکٹس شروع کردی تھی۔ (وہ یونیورسٹی آف بلوچستان کے گریجویٹ ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے انجینیئرنگ میں ڈپلومہ بھی کیا ہوا ہے)۔
مبارک علی 1990ء سے 2000ء تک کے 10 سالوں تک کنگ فو کے قومی چیمپئن بھی رہے ہیں۔
1990ء میں وہ اپنے انداز میں بہتری کے لیے ہانگ کانگ گئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’اس وقت شاؤلن کنگ فو جو کنگ فو کی اصل اور قدیم شکل ہے صرف چین تک محدود تھی۔ جب میں وہاں ماسٹروں سے ملا تو میں نے انہیں پاکستان آنے اور اپنے کام کو یہاں متعارف کروانے کی درخواست کی۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ ان کی زیادہ توجہ یورپ پر ہے کیونکہ وہاں انہیں زیادہ معاوضہ ملتا ہے۔ لیکن پھر بھی انہوں نے مجھے پاکستان میں کنگ فو کو فروغ دینے اور ہانگ کانگ میں سیکھی گئی چیزیں اپنے لوگوں کو سکھانے کا کہا اور میں نے یہ کام پوری لگن سے کیا‘۔
مبارک علی کے کام کی وجہ سے انہیں 1996ء میں ہانگ کانگ میں موجود کنگ فو کے مرکز کی جانب سے جنوبی ایشیا میں شاؤلن کنگ فو کا چیف بنادیا گیا۔ مبارک کے مطابق ’یوں میرا کام مزید مشکل ہوگیا کیونکہ اگلے 10 سال میں نے دیگر ممالک میں ایشین چیف کنٹرولر کی حیثیت سے کام کرنا تھا۔ اگرچہ یہ فن چین میں ایجاد ہوا لیکن ہم سب کی محنت کی وجہ سے آج شاؤلن کنگ فو کا جنوبی ایشیائی ہیڈ کواٹر پاکستان میں ہے‘۔
ہم دوبارہ مبارک علی کے سفر پر واپس آتے ہیں۔ مبارک علی ایک مرتبہ پھر ہانگ کانگ گئے اور اس مرتبہ ان کا مقصد 1992ء کی کنگ فو چیمپئن شپ میں حصہ لینا تھا، اور وہ میڈل کے ساتھ پاکستان واپس لوٹے۔
اسی سال وہ جاپان بھی گئے۔ انہوں نے چینی اساتذہ سے شاؤلن کنگ فو جسے ووشو کنگ فو بھی کہا جاتا ہے سیکھنے میں اور جاپانی اساتذہ سے سیمورائے فن سیکھنے میں 6 ماہ کا عرصہ صرف کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ان کی تربیت کا طریقہ بہت مختلف تھا اور میں تو ان کے نظم و ضبط میں ہی الجھ کر رہ گیا تھا‘۔
1993ء میں انہوں نے ملائیشیا میں منعقدہ ورلڈ کنگ فو چیمپئن شپ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ وہ 1995ء میں کنگ فو چیمپئن شپ میں شرکت کے لیے عراق بھی گئے۔ انہوں نے دیگر کئی چیمپئن شپ میں حصہ لیا جس سے ان کا سفری تجربہ بھی بڑھا۔ انہوں نے مکاؤ، شام، 6 مرتبہ ایران میں ہونے والی فجر چیمپئن شپ، حیدر آباد دکن بھارت میں ہونے والی شاؤلن کنگ فو چیمپئن شپ اور کئی یورپی ممالک میں بھی پاکستان کا جھنڈا بلند کیا اور میڈل حاصل کیے۔ وہ شاؤلن کنگ فو میں 8 مرتبہ قومی چیمپئن اور 14 مرتبہ عالمی چیمپئن رہ چکے ہیں۔
اس کے علاوہ انہیں کراٹے اور کنگ فو میں پی ایچ ڈی کی 5 اعزازی ڈگریاں بھی دی گئی ہیں۔ انہوں نے جن ممالک میں شاؤلن کنگ فو کو متعارف کروایا ان میں سے کچھ ممالک کی جانب سے انہیں امن ایوارڈ بھی دیے گئے ہیں۔ مبارک علی نے بتایا کہ ’کوریا، جاپان، افغانستان، ایران اور انڈونیشیا نے بھی ان ممالک میں میری خدمات پر مجھے ایمبیسیڈر ایوارڈ سے نوازا۔ مجھے رواں سال 25 مارچ کو پرائڈ آف پاکستان ایوارڈ بھی دیا گیا‘۔
مبارک علی کا کہنا ہے کہ مارشل آرٹس کے حوالے سے پاکستان میں بہت صلاحیت ہے، ’ہمارے یہاں مرد و خواتین مارشل آرٹس پریکٹشنر موجود ہیں‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب لڑکیاں بھی مارشل آرٹس میں دلچسپی لینے لگی ہیں اور اس بات کا ثبوت مختلف چیمپئن شپ میں ان کی بڑھتی ہوئی شرکت ہے۔ مبارک علی کے مطابق ’وہ چیمپئن شپ اور ٹائٹل جیت رہی ہیں۔ ان میں سے کئی کا تعلق تو کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے ہی ہے۔ کوئٹہ کے علاوہ کراچی، میرپور خاص اور گلگت کی بھی کئی لڑکیاں مارشل آرٹس سیکھ رہی ہیں۔ ان میں سے کئی تو اب قومی چیمپئن اور ساؤتھ ایشین چیمپئن بھی بن چکی ہیں‘۔
مبارک علی بتاتے ہیں کہ ’شین وینگ شاؤلن ووشو کنگ فو (ShanWang Shaolin Wushu Kungfu) اکیڈمی کے بانی کی حیثیت سے میں کوئٹہ میں اپنی برادری کے سیکڑوں لڑکوں اور لڑکیوں کو روزانہ مشرقی پہاڑوں پر تربیت فراہم کرتا ہوں۔ انہیں شاؤلن کنگ فو کی تربیت فراہم کرنے کا میرا مقصد اپنے نوجوانوں میں اعتماد پیدا کرنا اور انہیں صحت مند سرگرمیوں میں مشغول رکھنا ہے‘۔
بلوچستان میں ہزارہ برادری اکثر دہشتگرد حملوں کا نشانہ بنتی ہے اور ان کی جانوں کو سنگین خطرات لاحق رہتے ہیں۔ مبارک علی کہتے ہیں کہ ’ہم دہشتگردی سے لڑنے کے لیے اس فن کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ اس کے ذریعے ہم لوگوں کے ذہنوں کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ مارشل آرٹس اور کامبیٹ اسپورٹس سے مایوسی دُور کرنے میں مدد ملتی ہے‘۔ انہوں نے ایک نسبتاً ہلکے مارشل آرٹ تائی چی کا بھی ذکر کیا جو اس کی پریکٹس کرنے والوں کو سکون اور قوت بخشتا ہے۔
شین وینگ شاؤلن ووشو کنگ فو اکیڈمی کی پاکستان کے مختلف شہروں میں 200 سے زیادہ شاخیں ہیں۔ ان شہروں میں سوات، مالاکنڈ، سابقہ فاٹا، کوہاٹ، لاڑکانہ، میرپور خاص، قمبر علی خان، جھنگ، نارووال، جڑانوالا اور شورکوٹ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس اکیڈمی کی 36 شاخیں بیرون ملک بھی کام کررہی ہیں۔
مبارک علی کا کہنا ہے کہ اکثر اوقات وہ تمام اخراجات خود ہی برداشت کرتے ہیں کیونکہ حکومت کی جانب سے انہیں کوئی امداد نہیں ملتی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’پڑوسی ملک ایران کی کھیلوں کی وزارت بجٹ کا ایک بڑا حصہ کھیلوں کی سرگرمیوں کے لیے رکھتی ہے اور چھوٹے علاقوں میں کھیلوں کی سرگرمیوں کا انعقاد کرتی ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں شاید بجٹ کا ایک فیصد حصہ ہی کھیلوں پر خرچ ہوتا ہو۔ یہ طرزِ عمل مناسب نہیں ہے‘۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’حکومتِ پاکستان اور وزارتِ کھیل کو ملک میں کھیلوں کے فروغ کے لیے بڑی رقم مختص کرنی چاہیے جس سے صرف بڑے شہروں میں ہی نہیں بلکہ دیہاتوں میں بھی کھیلوں کی سرگرمیوں کا انعقاد کیا جائے، کیونکہ آپ کو نہیں معلوم کہ ٹیلنٹ کہاں چھپا ہوسکتا ہے‘۔
یہ مضمون 08 اگست 2021ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔