’سپریم کورٹ میں بطور ایڈہاک جج تقرر کیلئے جسٹس احمد کی رضامندی نہیں لی گئی‘
اسلام آباد: جوڈیشل کمیشن پاکستان (جے سی پی) منگل کے روز ہونے والے اجلاس میں متوقع طور پر سندھ ہائی کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس احمد علی ایم شیخ کی سپریم کورٹ میں ایڈہاک جج کے طور پر تعیناتی پر غور کرے گی، ایسے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مذکورہ جج نے ابھی تک اس عہدے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار نہیں کیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع کا کہنا تھا کہ اگر جوڈیشل کمیشن پاکستان، سندھ ہائی کورٹ کے جج کو سپریم کورٹ میں شامل کرنے پر غور کرتی ہے اور وہ یہ عہدہ سنبھالنے سے انکار کردیتے ہیں تو مسئلہ کھڑا ہوجائے گا۔
ذرائع نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ اس معاملے پر اجلاس کو منسوخ کردیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: عدالت عظمیٰ میں جج کے تقرر کا معاملہ: بار کونسلز آج یوم سیاہ منائیں گی
تاہم یہ بات قابل بحث ہے کہ کیا جج جوڈیشل کمیشن کے فیصلے پر عملدرآمد کے پابند ہیں یا عدالت عظمیٰ میں ان کی بطور ایڈہاک جج تعیناتی کے لیے ان کی رضامندی لینا لازمی ہے۔
چیف جسٹس گلزار نے اس عمومی خیال کے ساتھ 10 اگست کو سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس طلب کیا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اپنے تقرر سے انکار نہیں کریں گے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ایڈہاک جج کے طور پر لینے کا فیصلہ جسٹس محمد علی مظہر کی حالیہ سپریم کورٹ میں تقرر کے ساتھ منسلک حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا۔
مزید پڑھیں:وکلا کی سندھ ہائیکورٹ جج کے عدالت عظمیٰ میں ممکنہ ’تقرر‘ کے خلاف ہڑتال کی دھمکی
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ ماضی کے ایڈہاک ججوں کو سپریم کورٹ کے سبکدوش ہونے والے مستقل جج کی مہارت کو مدنظر رکھتے ہوئے مقرر کیا گیا تھا تا کہ مقدمات کا بیک لاگ ختم کرنے میں مدد مل سکے۔
ان کی جگہ سینئر پیوزین جج، جسٹس عرفان سعادت خان کو سندھ ہائی کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس تعینات کیا جائے گا۔
قبل ازیں 28 جولائی کو سپریم جوڈیشل کونسل نے سندھ ہائی کورٹ کے موجودہ 32 ججز میں سے 5 ججز کی جانب سے فیصلہ کیے گئے مقدمات کا تقابلی جائزہ لینے اور دیگر پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد جسٹس مظہر تو ترقی کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔
اس تقابلی جائزے کی نقل ڈان کے پاس بھی ہے جس کے مطابق سال 2010 سے 2021 کے دوران جسٹس مظہر نے مجموعی طور پر 357 مقدمات کا فیصلہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں:جونیئر جج کی ترقی: بار کونسلز کا ’حمایت کرنے والے ججز کو الوداعی تقریب‘ نہ دینے کا فیصلہ
ان میں سے 294 مقدمات میں تفصیلی فیصلہ جبکہ 63 مقدمات میں بغیر تفصیلی بات کے 3 یا 3 سے کم صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ سنایا۔
ان 357 میں سے 11 مقدمات آئینی درخواستوں کے تھے جبکہ بقیہ ضمانت، فوجداری، سول مقدمات اور ٹیکس کے معاملات سے متعلق تھے۔