پی ایس او نے مہنگا ترین ایل این جی کارگو خرید لیا
اسلام آباد: ایک نیا ریکارڈ قائم کرتے ہوئے سرکاری کمپنی پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) نے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کا ایک کارگو 20.55 ڈالر فی یونٹ میں خریدا جو نہ صرف ملک کی سب سے مہنگی بلکہ دنیا کی دوسری مہنگی ترین خریداری تھی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ بات ایسے وقت میں سامنے آئی جب حکومت دوسری سرکاری کمپنی پاکستان ایل این جی لمیٹڈ (پی ایل ایل) کی جانب سے 15.5 ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) خریداری کے جواز پیش کرتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ یہ متبادل ایندھن سے سستی ہے۔
دونوں اداروں کی جانب سے اسپاٹ مارکیٹ کے ذریعے مہنگے ایل این جی کارگوز حاصل کرنے کے نتیجے میں آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی جانب سے اگست کے لیے ایل این جی کی اوسط قیمت فروخت (جی ایس ٹی کے بغیر) 13.61 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو تھی جو جولائی کی قیمت سے 5.5 فیصد زیادہ تھی جبکہ جولائی کی قیمت جون کے مقابلے 25 فیصد مہنگی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف یا مسلم لیگ (ن)، مہنگی ایل این جی کس نے خریدی؟
دونوں اداروں پی ایس او اور پی ایل ایل نے کافی عرصے سے اپنی خریداری کے نرخ شائع کرنا بند کردیے ہیں لیکن یہ 20.05 فی یونٹ کا کارگو کبھی حکومت نے تسلیم نہیں کیا۔
تاہم اگست کے لیے ایل این جی کی قیمت کا نوٹی فکیشن ظاہر کرتا ہے کہ پی ایس او نے ایک لاکھ 40 ہزار کیوبک میٹرز (32 لاکھ یونٹ) کا کارگو 20.0555 فی یونٹ یا برینٹ کے 27.8615 فیصد نرخ پر خریدا۔
نوٹی فکیشن سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ایس او کے قطر سے طویل المدتی کانٹریکٹ کے ذریعے خریدے گئے 5 کارگوز کی اوسط قیمت برینٹ کے 13.37 فیصد کی شرح پر 9.62 ڈالر فی یونٹ تھی لیکن سب سے مہنگا چھٹا کارگو اپنی اوسط ڈی ای ایس (ڈیلیورڈ ایکس شپ) قیمت 11.42 ڈالر فی یونٹ پر پہنچ گیا۔
اس کے نتیجے میں پی ایس او کے 6 کارگوز کی اوسط قیمت پی ایل ایل کے خریدے ہوئے اتنے ہی کارگوز کی اوسط قیمت سے زیادہ ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان کا قطر سے 'سستی ترین' ایل این جی کا 10 سالہ معاہدہ ہوگیا
دوسری جانب قطر ایل این جی کے لیے پی ایل ایل کے ایک کارگو کی قیمت 11.59 فیصد برینٹ کی شرح پر 8.6 ڈالر فی یونٹ تھی لیکن 5 دیگر اسپاٹ کارگوز 10.52 ڈالر اور 10.83 ڈالر فی یونٹ کے تھے۔
اس طرح پی ایس او کے 11.42 ڈالر فی یونٹ کے مقابلے میں 6 کارگوز کے لیے پی ایل ایل کی اوسط ڈی ای ایس قیمت 10.32 ڈالر فی یونٹ تھی۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ اس نرخ پر ایل این جی بجلی پیدا کرنے کے لیے قابل عمل نہیں ہے لیکن ملک کو بجلی گھر چلانے کے لیے ڈیزل اور فرنس آئل کی کمی کا بھی سامنا ہے جس کی وجہ سے صارفین کو بجلی کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
یہ قیمتیں رواں ماہ کے دوران بجلی گھروں سمیت بعض صارفین سے وصول کی جائیں گی۔
یہ بھی پڑھیں: ایل این جی بحران کے دوران صنعتوں کو گیس کی فراہمی میں کمی کا امکان
عہدیداروں کا کہنا تھا کہ سرکاری ادارے گزشتہ چند مہینوں میں اسپاٹ مارکیٹ سے مہنگی ایل این جی خریدنے پر مجبور تھے اور انہیں بہت مہنگی ہونے کی وجہ سے پیشکشوں کا ایک سلسلہ منسوخ بھی کرنا پڑا لیکن ان مہینوں میں منسوخ ہونے والی پیشکشں بھی 11.6 ڈالر اور 13.99 ڈالر فی یونٹ کے درمیان تھیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایل این جی درآمد میں شامل پی ایل ایل اور پی ایس او عوامی تنقید سے بچنے کے لیے بولی کے نتائج کو خفیہ رکھے ہوئے ہیں، نتیجتاً اوگرا کے حساب سے ایک ماہ کے لیے صرف حتمی وزن کی اوسط فروخت کی قیمت کو عام کیا جاتا ہے۔
تاہم قطر سے طویل مدتی سپلائی کے سستے معاہدے ہونے کی وجہ سے مہنگی اسپاٹ بولیاں عموماً چھپ جاتی ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں