پُرتشدد جھڑپ کے بعد بھارتی ریاستیں سرحدی تنازع حل کرنے پر رضامند
بھارت کی دو شمال مشرقی ریاستوں نے طویل عرصے سے جاری سرحدی تنازع کے بعد پرامن طور پر اختلافات ختم کرنے پر اتفاق کر لیا۔
اس سرحدی تنازع کے باعث گزشتہ ہفتے پرتشدد واقعات سامنے آئے تھے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کے مطابق آسام اور میزورام کے درمیان حد بندی کے معاملے پر گزشتہ پیر کو ہونے والی جھڑپوں میں 6 پولیس افسران ہلاک ہوگئے تھے، جس سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو بہت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
دونوں ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے اتوار کو ٹوئٹ کیا کہ وہ تنازع کے حل کے لیے اب 'پرامن' رویہ اپنائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کی ریاست آسام میں اسلامی مدارس پر پابندی کا قانون منظور
میزورام کے وزیر اعلیٰ زورامتھانگا نے مقامی افراد پر زور دیا کہ وہ سوشل میڈیا پر 'حساس پیغامات' پوسٹ کرنے سے گریز کریں جبکہ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمانتا بِسوا سرما نے بھی معاملے کے پرامن حل پر زور دیا۔
انہوں نے ٹوئٹ میں کہا کہ 'آسام ۔ میزورام کی سرحد کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ دونوں ریاستوں کے عوام کے لیے ناقابل قبول ہے، سرحدی تنازعات صرف بات چیت کے ذریعے حل ہو سکتے ہیں'۔
واضح رہے کہ ان جھڑپوں میں 60 افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔
پرتشد واقعات میزورام کی جانب سے آسام پر اس کی زمین پر قبضہ کرنے کا الزام عائد کرنے کے بعد سامنے آئے تھے، دونوں ریاستوں نے ان واقعات کا الزام ایک دوسرے پر عائد کیا تھا۔
آسام نے جواب میں میزورام کے دیہی افراد پر جنگل کی اضافی زمین پر قبضے کا الزام لگایا تھا۔
مزید پڑھیں: بھارتی ریاست آسام میں 19 لاکھ افراد شہریت سے محروم کردیے گئے
ہیمانتا بِسوا سرما، نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ زورامتھانگا، حکمران بی جے پی اتحاد کی جماعت میزو نیشنل فرنٹ کے سربراہ ہیں۔
میزورام 1972 تک آسام کا حصہ تھا اور یہ 1987 میں ریاست بنی تھی، اس کے بعد سے ہی دونوں ریاستوں کے درمیان سرحد کا تنازع چلا آرہا ہے جس دوران کئی مرتبہ پرتشدد واقعات پیش آچکے ہیں۔
بھارتی میڈیا کا کہنا تھا کہ حکومت حد بندی کی تعریف کے لیے سیٹلائٹ میپنگ کا سہارا لے سکتی ہے جس سے تنازع کے حل میں مدد ملے گی۔