پشاور: پولیو ٹیم کا محافظ پولیس اہلکار فائرنگ سے جاں بحق
پشاور میں پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار، ڈیوٹی سے واپسی پر مسلح موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ سے جاں بحق ہوگیا۔
خبرایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق پولیس کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا میں پولیو کی ویکسینیشن ٹیموں کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں پر دو حملے ہوئے اور یہ ان میں سے ایک ہے۔
مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا: پولیو ٹیم کے ہمراہ ڈیوٹی دینے والا پولیس اہلکار قتل
پشاور کے پولیس چیف افتخار خان کا کہنا تھا کہ جاں بحق پولیس اہلکار پولیو ٹیم کی سیکیورٹی کے بعد اپنی موٹر سائیکل پر واپس آرہے تھے۔
پولیس افسر شوکت علی کا کہنا تھا کہ قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان کے علاقے لدھا میں سڑک کنارے نصب بم کا دھماکا اس وقت ہوا جب پولیو ویکسینیشن ٹیم کو سیکیورٹی فراہم کرنے والی گاڑی وہاں سے گزری۔
انہوں نے کہا کہ دھماکے کے نتیجے میں گاڑی میں موجود ایک افسر زخمی ہوگیا۔
خیبرپختونخوا میں ہونے والے دونوں حملوں میں ویکسینیشن ٹیم کے کارکن محفوظ رہے جبکہ حملوں کی ذمہ داری کسی نے تاحال قبول نہیں کی۔
خیال رہے کہ حکومت کی جانب سے دو روز قبل صوبے کے 18 اضلاع میں پولیو ویکسینیشن مہم شروع کی گئی تھی تاکہ سال کے اختتام تک اس بیماری کا خاتمہ کیا جائے۔
اس سے قبل دہشت گردوں نے پولیو ٹیموں اور ان کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا تھا اور بچوں کو قطرے پلانے کو مغرب کی سازش قرار دیا جاتا تھا۔
واضح رہے کہ دنیا میں پاکستان اور افغانستان دو ایسے ممالک ہیں جہاں پولیو کا مرض موجود ہے جبکہ گزشتہ برس نائیجیریا کو بھی پولیو فری ملک قرار دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: صوابی میں فائرنگ سے 2 پولیو ورکرز جاں بحق
انسداد پولیو مہم کے صوبائی ترجمان ایمل خان کا کہنا تھا کہ 5 روزہ مہم کے دوران 37 لاکھ بچوں کو قطرے پلانے کا ہدف ہے۔
انہوں نے کہا کہ 17 ہزار تربیت یافتہ کارکن قطرے پلانے کے لیے گھرگھر جارہے ہیں۔
ایمل خان نے بتایا کہ ویکسین پلانے والی ٹیموں کی حفاظت کے لیے پولیس اور سیکیورٹی فورسز کو تعینات کردیا گیا ہے۔
پولیو ٹیمز پر حملے
خیال رہے کہ ملک کے کئی علاقوں میں پولیو مہم کے دوران ہیلتھ ورکرز پر حملوں کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں اور یہ حملے ملک سے پولیو کے خاتمے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
سال 2012 سے اب تک اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران 120 سے زائد لیڈی ہیلتھ ورکرز شہید ہوچکی ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومت کی شروع کی جانے والی پولیو مہم میں حصہ لیتے ہوئے قتل کی جانے والی ان ہیلتھ ورکرز کے اہلِ خانہ کو معاوضے کے حوالے سے سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
18 دسمبر 2012 کو پشاور، موچکو، کراچی کے علاقے گلشنِ بونیر اور راجہ تنویر کالونی میں پولیو ٹیم پر فائرنگ کے واقعات پیش آئے تھے جس کے نتیجے میں 4 خواتین اور ایک مرد ہلاک ہوگئے تھے۔
مذکورہ واقعات میں جانی نقصان ہونے پر عالمی ادارہ صحت نے عارضی طور پر فیلڈ ورک بھی روک دیا تھا۔
مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا: پولیو ٹیم پر حملہ، ایک اور پولیس اہلکار قتل
پشاور میں 28 مئی 2013 کو پولیو ورکرز پر حملے کے نتیجے میں ایک خاتون ہلاک ہوگئی تھیں، اس کے بعد 16 جون کو صوابی میں پولیو ٹیم پر فائرنگ کے نتیجے میں 2 پولیو رضاکار زندگی سے محروم ہوگئے تھے۔
بعد ازاں 13 دسمبر کو ضلع جمرود میں فائرنگ کے باعث ایک پولیو ورکر ہلاک ہوگیا تھا۔
اسی طرح کراچی کے علاقے قیوم آباد میں 21 جنوری 2014 کو انسدادِ پولیو مہم کے دوران پولیو کی ویکسین پلانے والے ہیلتھ ورکروں کی ٹیم پر فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
اس کے بعد 9 دسمبر 2014 کو پنجاب کے شہر فیصل آباد میں نامعلوم افراد نے پولیو ویکسی نیشن ٹیم کے ایک رکن کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔
30 نومبر 2015 کو ضلع صوابی ایک مرتبہ پھر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ڈسٹرکٹ پولیو کوآرڈینیٹر ڈاکٹر یعقوب ہلاک اور ان کے ڈرائیور زخمی ہوگئے تھے۔
جس کے بعد 24 مئی 2017 کو بھی بنوں میں بھی پولیو رضاکار پر فائرنگ کا واقعہ سامنے آیا اور ایک پولیو رضاکار کو قتل کردیا گیا تھا۔
23 اپریل 2019 کو خیبر پختونخوا کے علاقے بنوں میں نامعلوم افراد نے پولیو مہم کی سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکار کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔
24 اپریل 2019 کو خیبرپختونخوا کے ضلع بونیر میں ہونے والے حملے میں ایک اور پولیس اہلکار کو قتل کردیا گیا تھا۔
25 اپریل 2019 کو بلوچستان میں پولیو کی ٹیم پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک خاتون رضاکار ہلاک اور ایک زخمی ہوگئی تھیں۔
18 دسمبر 2019 کو صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع لوئر دیر میں نامعلوم مسلح افراد نے پولیو ٹیم کی سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں 2 اہلکار شہید ہوگئے تھے۔
جولائی 2020 میں صوابی کے علاقے پَرمولی میں بغیر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کام کرنے والی پولیو ٹیم پر حملے میں 2 خاتون ورکر جاں بحق جبکہ ہوگئی تھیں۔