• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

تحریک انصاف کے ایم پی اے نذیر چوہان 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل

شائع July 31, 2021
عدالت نے ایف آئی اے کی نذیر چوہان کے جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کی درخواست کو مسترد کردیا۔ - فائل فوٹو:ڈان نیوز
عدالت نے ایف آئی اے کی نذیر چوہان کے جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کی درخواست کو مسترد کردیا۔ - فائل فوٹو:ڈان نیوز

ضلعی عدالت نے وفاقی تحقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی درخواست مسترد کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما نذیر چوہان کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کی جانب سے ایف آئی اے میں درج کرائے گئے مقدمے میں ایف آئی اے نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن صوبائی اسمبلی نذیر چوہان کے مزید جسمانی ریمانڈ کا مطالبہ کیا تھا۔

نذیر چوہان کا جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر ایف آئی اے نے انہیں ضلعی عدالت میں پیش کیا اور مجسٹریٹ سے نذیر چوہان کا مزید جسمانی ریمانڈ طلب کیا۔

دوران سماعت ایف آئی اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملزم نذیر چوہان تعاون نہیں کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: تحریک انصاف کے ایم پی اے نذیر چوہان کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

ان کا کہنا تھا کہ 'ملزم کا فیس بک اکاؤنٹ چیک کیا ہے جس میں سے ویڈیوز نکلی ہیں، اسکی وائس سمپلنگ کرانی ہے اور ملزم کا وٹس ایپ نمبر اور ڈیوائس کی ریکووری کرنی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'اسکی ریکووری کے ساتھ ہی کیس چلے گا، وہ ڈیوائس ملے گی تو ہی وٹس ایپ چیک ہو سکتا ہے جو اس سے لنک ہو'۔

سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ 'ملزم کے پاس آئی فون ہے جس کے آئی کلاوڈ میں سب کچھ ہوتا ہے، اگر ملزم کے خلاف کچھ نہ ہوا تو اسکا فائدہ بھی ملزم کو ہو گا'۔

جج نے استفسار کیا کہ ریمانڈ میں کیا پیش رفت ہوئی۔

وکیل نے بتایا کہ ملزم کا فیس بک چیک ہوا ہے، موبائل مانگ رہے ہیں تاہم نذیر چوہان سے سختی کر نہیں سکتے اور ملزم فون نہ دینے کے لیے مختلف بہانے کر رہا ہے۔

عدالت میں نزیر چوہان کے وکیل شفقت چوہان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نذیر چوہان نے اس دورانیے میں کبھی آئی فون استعمال ہی نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پتہ نہیں ایف آئی اے کو یہ معلومات کہاں سے ملتی ہیں، ایف آئی اے سسٹم کے ساتھ کھیل رہی ہیں، جب آئی فون استعمال ہی نہیں کیا تو ریکووری کیا کرنا ہے'۔

وکیل ملزم نے کہا کہ 'اگر کوئی مواد انٹرنیٹ پر شئیر ہی نہیں ہوا تو یہ کوئی کیس ہی نہیں ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: شہزاد اکبر پر الزام: نذیر چوہان کے خلاف مقدمے سے بات بگڑی ہے، جہانگیر ترین

بعد ازاں عدالت نے ایم پی اے نذیر چوہان کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی درخواست مسترد کرتے ہوئے انہیں 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

عدالت نے آئندہ سماعت پر ایف آئی اے سے نذیر چوہان کی تفتیش سے متعلق رپورٹ بھی طلب کرلی۔

درخواست ضمانت دائر

سیشن عدالت نے نذیر چوہان کی درخواست ضمانت پر ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 2 اگست کو جواب طلب کر لیا۔

درخواست ضمانت میں موقف اختیار کیا گیا کہ مشیر احتساب شہزاد اکبر کے دباؤ پر بے بنیاد مقدمہ درج کیا گیا، ایک مقدمے میں ضمانت ہوئی تو دوسرے میں گرفتار کر لیا گیا۔

نذیر چوہان کا موقف ہے کہ وہ تحریک انصاف کے ایم پی اے ہیں اور اختلاف پر انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سائبر کرائم کے مقدمہ میں تفتیش مکمل ہو چکی ہے، الزامات ثابت نہیں ہوئے، عدالت میں غلط بیانی کی گئی۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ایک جرم کے الزام میں دو بار سزا نہیں ہو سکتی، فیس بک سمیت دیگر سائٹس پر پوسٹ بھی نذیر چوہان کی نہیں ہیں اس لیےعدالت درخواست ضمانت منظور کرکے رہائی کا حکم دے۔

نذیر چوہان کی گرفتاری

واضح رہے کہ اس سے قبل وزیراعظم کے مشیر احتساب شہزاد اکبر نے رواں برس مئی کے اواخر میں اپنے خلاف متنازع بیان دینے پر جہانگیر ترین ہم خیال گروپ کے رکن صوبائی اسمبلی نذیر چوہان کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا۔

ایف آئی آر میں شہزاد اکبر کی جانب سے کہا گیا تھا کہ رکن اسمبلی اور پی ٹی آئی رکن نذیر چوہان نے نجی چینل ‘بول’ میں ایک پروگرام کے دوران ان کے عقیدے سے متعلق جھوٹ پر مبنی الزام لگایا۔

ایف آئی آر کے مطابق مشیر نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ’نذیر چوہان نے میرے مذہبی عقائد کو نقصان پہنچا کر میرے وقار، ملکیت اور جان کو خطرے میں ڈال دیا ہے‘۔

یاد رہے کہ رواں ہفتے تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر کی جانب سے درج ایک شکایت پر گرفتار کیا گیا تھا، رکن صوبائی اسمبلی کو ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے ایک سیل میں منتقل کیا جانا تھا لیکن جوڈیشل مجسٹریٹ نے انہیں ضمانت دے دی تھی۔

تاہم بعد ازاں رکن اسمبلی کو 28 جولائی کو الیکٹرانک جرائم کی روک تھام ایکٹ 2016 کی دفعہ 11 (نفرت انگیز تقریر) اور دفعہ 20 کے تحت درج مقدمہ میں گرفتار کیا گیا جبکہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 298، 500، 505(سی)، 506 اور ٹیلی گراف ایکٹ کی دفعہ 29 کو بھی مقدمے کا حصہ بنایا گیا۔

مزید پڑھیں: شہزاد اکبر نے اپنے خلاف متنازع بیان پر نذیر چوہان کے خلاف مقدمہ درج کرادیا

ایف آئی آر کے مطابق ملزم نے معاون خصوصی کے مذہبی اعتقاد کے حوالے سے سنگین الزامات سوشل میڈیا پر دی گئے بیانات میں بھی عائد کیے اور شکایت کنندہ اس منظم نفرت انگیز مہم پر سخت تشویش میں مبتلا ہیں جو نذیر چوہان اور دیگر نے ان کے خلاف سوشل میڈیا اور واٹس ایپ چیٹس پر شروع کی ہوئی ہیں۔

ایف آئی آر میں شہزاد اکبر نے مؤقف اپنایا کہ شرپسند عناصرانہیں سرکاری فرائض ی ادائیگی سے روکنے کے لیے بلیک میل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ اس بدنیتی پر مبنی اور نفرت انگیز مہم کا مقصد شکایت گزار کو پاکستان میں بدعنوانی کے سدباب اور احتساب کو یقینی بنانے کے لیے کی جانے والی کوششوں سے روکنا ہے۔

29 جولائی کو ضلعی عدالت کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے نذید چوہان کا جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا جس کے مکمل ہونے پر انہیں آج عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024