خواتین پر تشدد، قانون کے نفاذ سے نہیں ذہنیت بدلنے سے ختم ہوگا، شیریں مزاری
وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے خواتین پر تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عورت جب اسلام آباد جیسے شہر میں محفوظ نہیں تو پھر اس کو کہاں تحفظ ملے گا، ملک میں ہر ایک کی ذہنیت بدلنے سے ہی تشدد ختم ہوگا۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے خواتین پر تشدد کے حوالے سے کہا کہ لوگوں کی ذہنیت بدلیں تاکہ ایسا تشدد اور ظلم نہ ہو، اس کو کیوں نہیں روکتے۔
مزید پڑھیں: نورمقدم قتل کیس: ملزم ظاہر جعفر کا مزید 3 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
انہوں نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کوئی ماں ہے، کوئی بیٹی ہے، کوئی بہن ہے، میں کہتی ہوں کہ ہم پہلے عورتیں اور خواتین ہیں، یہ ماں، بہن اور بیٹی کا بہانہ نہ بنائیں، اس طرح بہانہ بناتے بناتے آپ انہیں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کردیتے ہیں، ماں بہن بیٹی کاروکاری ہوجاتی ہے کہ یہ عزت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کون سی عزت ہے کہ آپ خواتین کو مار مار کر قتل عام کریں، خاندان کی یہ کون سی عزت ہے، خواتین کو اگر آپ بطور خواتین نہیں مانیں گے اور کسی بہانے سے خواتین پر تشدد کریں گے تو آپ غلط کر رہے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ آپ اپنا ذہن اور اپنی سوچ بدلیں، سب سے پہلے میں ایک عورت ہوں، پھر اس کے بعد کسی کی ماں، بہن اور بیٹی ہوں گی، یہ رشتے عورتوں پر تشدد کے لیے بہانہ ہوگیا ہے، بس بہت ہوگیا ہے، اب ہم اس بات کو نہیں مانیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اسکول، مدرسوں اور گھروں میں چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے لیکن کوئی پاکستان میں یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہے، بچوں پر تشدد سب سے پہلے گھروں میں ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی کراچی میں چھوٹی سی بچی کو جنسی تشدد کرکے نالے میں پھینک دیا گیا، پنڈی میں یہ ظلم ہوتا ہے، خیبرپختونخوا میں ایک جوڑے کو پسند کی شادی کرنے پر ماردیا گیا، انہوں نے کیا ظلم اور غلط چیز کی تھی، ہر جگہ ظلم اور تشدد کا کوئی بہانہ نکل آتا ہے۔
شیریں مزاری نے کہا کہ ہمیں قوانین بالکل سخت کرنے چاہیئں، قوانین کا نفاذ ہونا چاہیے لیکن قوانین بنانے اور نفاذ سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، مسئلہ اس وقت حل ہوگا جب یہاں ہر شخص کی ذہنیت بدل جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ بہانہ نہیں بنے گا کہ قانون غلط اور اپنے کلچر کا خیال نہیں رکھتا تو اس کی وجہ سے خواتین پر ظلم اور تشدد ہوگیا، نہیں! یہ کوئی وضاحت نہیں ہے کہ آپ خواتین کے خلاف ظلم اور تشدد کریں۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: ریپ کے بعد قتل ہونے والی بچی کا مقدمہ درج، دہشت گردی کی دفعات شامل
ان کا کہنا تھا کہ قانون سخت کرنے، نفاذ اور کمیٹیاں بنانے کے لیے بہت کچھ کہا گیا لیکن آپ سب کچھ کریں، جب تک مردوں کی ذہنیت نہیں بدلے گی، ہر خاتون اپنے آپ کو مضبوط نہیں کرے گی، یہ نہ کہے گی میرا بھائی یا مرد ہماری عزت بچائیں، مرد ہمیں ہراساں نہ کریں بلکہ آپ اپنے آپ کو مضبوط کریں۔
خواتین کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ جب آپ اپنے آپ کو مضبوط کریں گی اور مضبوطی سے کھڑی رہیں گی تو کوئی مرد آپ کے ساتھ اس طرح ظلم نہیں کرسکے گا۔
انہوں نے کہا کہ میں اپنی بہنوں سے کہنا چاہتی ہوں کہ میں ہر خاتون کے ساتھ کھڑی ہوں، چاہے وہ جیسی ہوں کیونکہ یہ کوئی بہانہ نہیں ہوسکتا کہ اس کے ساتھ تشدد صحیح ہوا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہماری حکومت نور مقدم اور دیگر کیسز کو قریب سے دیکھ رہی ہے اور وزیراعظم خود ایسے کیسز دیکھتے ہیں، پولیس روزانہ رپورٹ دیتی ہے، ہم بھی رابطے میں ہیں اور اب تک کیس بالکل صحیح راہ پر چل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا اور سوشل میڈیا صارفین سے میری درخواست ہے کہ خدا کے واسطے غلط خبریں مت اچھالیں، آدھا سچ مت پھیلائیں اور سنسنی بھی نہیں پھیلائیں، ایسی تصاویر بھی نہ ڈالیں، جس سے متاثرہ کے اہل خانہ جو پہلے ہی مشکل وقت سے گزر رہے ہوتے ہیں، انہیں مزید مشکل میں مت ڈالیں۔
ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاندان کو عزت دیں اور جو معصوم بچی کا قتل ہوا ہے، اس کی روح کو بھی عزت دیں اور اس طرح غلط چیزیں اور سنسنی خیز ویڈیوز مت اچھالیں۔
انہوں نے کہا کہ ہر عورت کو ہمیں تحفظ دینا ہے، ظلم اور تشدد اس ملک میں اسی وقت ختم ہوگا جب ہر شخص خاص طور پر مرد، عورتیں بھی کیونکہ ایک ماں سب سے پہلے بچوں کو تربیت دیتی ہے، جب تک ہم اپنی ذہنیت نہیں بدلیں گے، جب تک ہم ہر عورت، بچی اور بچے کو عزت اور تحفظ نہیں دیں گے۔
شیریں مزاری نے کہا کہ جب تک یہ ظلم اور جرائم ختم نہیں ہوں گے اس ملک میں صرف قانون سے ختم نہیں ہوں گے، خدا کے واسطے ہر شخص اپنی ذہنیت بدلیں اور عزت دیں، بچوں، بچیوں اور عورتوں کے انسانی حقوق کا احترام کریں۔
انہوں نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ چادر اور چار دیواری میں عورتوں کو مار دیں، پیٹ لیں کیونکہ آپ اس کے خاوند ہیں تو یہ نہیں ہوسکتا، عورت کے خلاف ایسی کوئی چیز نہ کریں جو اس کے حقوق کے خلاف ہو اور اس کی عزت پر سوالیہ نشان ڈال رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: راولپنڈی: پولیس نے خاتون، ان کے بچے کا مبینہ قاتل گرفتار کرلیا
ان کا کہنا تھا کہ اس ملک کا ہر شخص اپنی سوچ اور ذہنیت بدلے تاکہ اس ملک میں ہر عورت، بچہ اور بچی محفوظ رہ سکیں، یہ نہ کہیں کہ ملک عورتوں کے لیے بہت خطرناک ہے۔
شیریں مزاری نے کہا کہ پورے ملک میں خواتین میں یہ سوچ بڑھتی جارہی ہے کہ ملک میں عورت کہیں بھی محفوظ ہے یا ہر جگہ اس کی جان کو خطرہ ہے، اگر اسلام آباد جیسے شہر میں خطرہ ہے تو عورت پھر کہاں محفوظ ہوسکتی ہے، یہ سوال ہے اور جب تک ہر بندہ اپنی سوچ نہیں بدلے گا عورتوں میں یہ سوال رہے گا اور ختم نہیں ہوگا۔
نورمقدم کیس میں وزیراعظم اور وزیرداخلہ ذمہ دار ہیں، خرم دستگیر
شیریں مزاری کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن خرم دستگیر نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس ایوان پر یہ بات وضاحت سے ہونی چاہیے کہ خواتین کے حقوق کوئی علیحدہ کیٹگری یا ڈبہ نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں صراحت سے دہرانا چاہتا ہوں کہ خواتین کے حقوق انسانی حقوق ہیں، خواتین کے حقوق آئینی حقوق ہیں، خواتین کے حقوق اسلامی حقوق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کے حقوق آئینی اور شہری حقوق ہیں اور جس طرح کا یہ واقعہ ہوا ہے یہ ٹیسٹ کیس ہے، قتل تو بہت دور کی بات ہے اور اس واقعے کے بعد اندوہناک واقعات پے در پے ہورہے ہیں۔
خرم دستگیر نے کہا کہ راولپنڈی میں واقعہ ہوا کہ ایک خاتون کے سامنے اس کے بچے کی لاش پڑی ہوئی تھی، پھر اس خاتون کی بے حرمتی کی گئی اور اس کا گلہ کاٹا گیا اور ہسپتال جانے سے پہلے اس کی بھی موت ہوگئی۔
انہوں نے کہا کہ وہ تمام رویے جو کسی بھی طرح ایک پاکستانی خاتون کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تم مردوں سے کسی طرح کم تر ہو یہ رویے اب ختم کرنے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنی خواتین کی صرف عزت کا دفاع نہیں کرنا بلکہ ان کے حقوق کا دفاع کرنا ہے، پاکستان کی خواتین کا حق زندگی، حق جائیداد، حق تحفظ اتنا ہی ہے جتنا پاکستان کے دیگر شہریوں کا ہے۔
رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ یہ ایوان آئین بنانے والا ہے، اس لیے یہ ایوان ضامن ہے تو مقتولہ نور مقدم کا ایک ایسا کیس آگیا ہے جس کو کسی صوبے پر ڈالا نہیں جاسکتا ہے، وزیراعظم اور وزیرداخلہ اس واقعے کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میری استدعا ہے کہ اس معاملے میں جہاں وفاقی حکومت، وزیراعظم اور وزیر داخلہ براہ راست ذمہ دار ہیں، ہمیں انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد میں سابق پاکستانی سفارتکار کی بیٹی قتل
ان کا کہنا تھا کہ اس پر عمل درآمد کرنا چاہیے کہ آپ جو کوئی بھی ہوں اور خاص طور پر ہماری ثقافت میں خواتین کی ایک خاص عزت کی جگہ ہے تو اس کے ساتھ ایسا ہونا حکومت کے سامنے چیلنج ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں ایوان کی خواتین سے کہنا چاہتا ہوں کہ اس ایوان کے تمام اراکین چاہے ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، کسی بھی مذہب سے ہو ہم مقتولوں اور جن کے ساتھ ہیں ظلم ہوا ہے ان کے ساتھ ہیں۔
خرم دستگیر نے کہا کہ یہ بات درست کی گئی ہے کہ بہت قوانین موجود ہیں اور اس پر عمل درآمد بھی ہوتی رہتی ہے لیکن یہاں ہمیں اس ٹیسٹ کیس کو اس کے آخری حد تک پہنچا کر قوانین کا اطلاق کرکے اس مقتول کو ہمیں انصاف دلانا ہے تاکہ پورے ملک کے لیے مثال بنے اور صوبے بھی اس پر عمل کریں۔
تبصرے (1) بند ہیں