'بھارت، پاکستان میں دہشت گردی کیلئے 20 سال سے افغان سرزمین استعمال کررہا ہے'
وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے کہا ہے کہ بھارت نے گزشتہ 20 سالوں کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے کے لیے افغانستان کو 'دہشت گردوں کی پناہ گاہ' بننے پر مجبور کیا لیکن اب یہ سلسلہ رکنا چاہیے۔
'دی وائرز' کے صحافی کرن تھاپر کے ساتھ ایک ورچوئل انٹرویو میں معید یوسف نے کہا کہ اگر بھارت ترقیاتی کاموں کی آڑ میں اپنے کارکنوں کو افغانستان میں تعینات کر کے پاکستان میں دہشت گردی کی آگ بھڑکانے کے لیے ان کا استعمال کرتا ہے تو پاکستان اسے ہرگز قبول نہیں کرے گا اور افغانستان کو دہشت گردوں کے لیے پناہ گاہ ہرگز نہیں بننا چاہیے۔
مزید پڑھیں: پاک بھارت حکام کی دبئی میں مسئلہ کشمیر پر بات چیت
قومی سلامتی کے مشیر نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین بہتر تعلقات کی ایک راہ کھلی ہے لیکن ہندوستان کو اس کے لیے سازگار ماحول بنانے کی ضرورت ہے، پاکستان میں اکثر ماہرین کو یقین ہے کہ ہندوستان کی موجودہ حکومت ایسا نہیں ہونے دے گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر بھارت پاکستان کی موجودہ سول اور فوجی قیادت کے ساتھ بات کر کے تعلقات آگے بڑھانے میں ناکام رہا تو وہ خطے میں امن کے قیام کا نادر موقع گنوا دے گا۔
ممکنہ افغان حکومت کے بارے میں سوال کے جواب میں معید یوسف نے کہا کہ افغان اپنے مستقبل کے لیے جو بھی فیصلہ کرتے ہیں پاکستان ان کا خیرمقدم کرے گا، ہمارا کوئی پسندیدہ فریق نہیں ہے، اگر کوئی باہر سے اپنے فیصلے مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ طرز عمل کارگر نہیں ہو گا۔
انہوں نے اصرار کیا کہ پاکستان، افغانستان میں سیاسی تصفیے کے لیے کردار ادا کرتا رہے گا۔
جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ اگر طالبان مسلح طاقت کے ذریعے افغانستان پر قابض ہوتے ہیں تو کیا پاکستان اس کا خیرمقدم کرے گا تو وزیر اعظم کے مشیر نے کہا کہ ہم دیکھیں گے کہ ایسی صورت میں عالمی برادری کا کیا ردعمل آتا ہے اور پھر اسی مناسبت سے فیصلہ کریں گے۔
جب میزبان نے پوچھا کہ اگر طالبان افغانستان پر قبضہ کرتے ہیں تو کیا پاکستان افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد سیل کردے گا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ایسا ہونے کا امکان نہیں ہے اور وزیر اعظم کے کسی بھی فیصلے پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
'پس پردہ' ملاقاتیں
مشیر قومی سلامتی نے دبئی میں اپنے ہندوستانی ہم منصب اجیت دوول سے خفیہ ملاقات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی جانب سے پاکستان سے رابطہ کیا گیا تھا۔
بات چیت کے لیے 'پس پردہ ذرائع سے روابط' کے حوالے سے جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی حال ہی میں اجیت دوول سے ملاقات کی ہے تو مشیر قومی سلامتی نے جواب دیا کہ انٹیلی جنس سطح کے روابط بدترین حالات میں بھی ہوتے ہیں، ہندوستان کی طرف سے کون تھا میں اس بات کو رازداری میں رکھوں گا کیونکہ اس کا فیصلہ ہندوستان نے کرنا ہے کہ وہ یہ بات ظاہر کرنا چاہتے یا نہیں اور اگر میں سچ کہوں تو یہ بات بھی سامنے آ جائے گی کہ ہندوستان میں فیصلے کون لیتا ہے لہٰذا بہتر ہے کہ وہی فیصلہ کریں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت نے تمام متنازع مسائل پر خفیہ مذاکرات کی پیشکش کی، پاکستانی حکام
اس موقع پر پروگرام کے میزبان کرن تھاپر نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ آرمی چیف اور اجیت دوول کے مابین ملاقات کا عندیہ دے رہے ہیں تو معید یوسف نے اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان، بھارت کے ساتھ مل کر آگے بڑھنا چاہتا ہے لیکن بدقسمتی سے جیسا کہ وزیراعظم کہہ چکے ہیں کہ آر ایس ایس کا نظریہ راہ میں حائل ہو جاتا ہے۔
معید یوسف نے کہا کہ پاکستان کے دو اہم تحفظات ہیں، پہلا مسئلہ کشمیر جیسا کہ ہمیشہ رہا ہے اور جب تک کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حق خودارادیت حاصل نہیں ہوتا، تب تک یہ موجود رہے گا۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا دوسری بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے، بھارت کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی میں یہ پہلو انتہائی اہمیت کا حامل ہے، ہم چاہتے ہیں کہ بھارت یہ سمجھے کہ وہ پاکستان میں پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا ارتکاب کررہا ہے اور یہ ناقابل قبول ہے۔
مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ اگر کوئی تیسرا فریق اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق پاکستان اور بھارت کے مابین مسئلہ کشمیر حل کرنے میں مدد کے لیے آنا چاہتا ہے خوش آئند ہے، تیسرے فریقین نے ہمیشہ اس سلسلے میں پاکستان سے رابطے کیے ہیں کیونکہ دنیا پریشان ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر خارجہ کی متحدہ عرب امارات کی مدد سے 'خفیہ پاک بھارت' مذاکرات کی تردید
انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان ایک ایسی سمت میں گامزن ہے جہاں سے وہ دنیا کے ساتھ رابطے اور امن کا خواہشمند ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر پر پیشرفت چاہتا ہے لیکن کشمیریوں اور ان کی جانوں کی قیمت پر ایسا نہیں کرے گا، دو سال سے کشمیر کی صورتحال معمول پر نہیں آئی ہے، جب تک کشمیریوں کو حق خودارادیت نہیں مل جاتا، تب تک ہم اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں پر قائم ہیں۔
ہندوستان کو زمینی اقدامات اٹھانا ہوں گے
معید یوسف نے کہا کہ کوئی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے یہ دیکھ کر اخلاص آزما سکتا ہے کہ آیا بھارت نے کشمیر کو حل کرنے کے کم از کم کیا اقدامات کیے ہیں اور دوسرا یہ کہ ہم چاہتے ہیں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کچھ زمینی اقدامات اٹھائے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کو ان کے حق خودارادیت کی فراہمی کے بارے میں گفتگو کے آغاز کے لیے 5 اگست 2019 کے غیرقانونی اقدامات کو واپس لینا ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت یہ توقع نہ رکھے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا ارتکاب جاری رکھے گا اور پاکستان اس بنیاد پر اپنی آنکھیں بند رکھے گا کیونکہ عالمی بیانیہ آپ کی طرف ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا پاک بھارت دوستی کے لیے پاکستان کا 'ہتھیار ڈالنا' ناگزیر ہے؟
انہوں نے کہا کہ اگر ہندوستان یا کسی اور جگہ پر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ پاکستان کی مفاہمت کے بارے میں بات چیت اس بات کا عندیا دے رہی ہے کہ پاکستان کشمیر کو بھول جائے گا اور آگے بڑھ جائے گا تو وہ لوگ احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔
مشیر قومی سلامتی نے لاہور میں حالیہ بم دھماکے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے پاس تمام شواہد موجود ہیں کہ بھارت میں بیٹھے عناصر نے تیسرے ملک میں بیٹھے افراد کو بھرتی کر کے یہ حملہ کرایا۔
جب ان سے کہا گیا کہ وہ عوام کے سامنے اس جرم میں ملوث شخص کا نام بتائیں تو انہوں نے جواب دیا کہ جب صحیح وقت آئے گا تو ہر کوئی اس کی تفصیلات ٹی وی پر سن سکے گا۔
بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے کردار پر ہندوستانی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان کے وزیر برائے امور خارجہ نے سرعام کہا تھا کہ بھارت، پاکستان کی ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شمولیت کو یقینی بناتا ہے۔
مزید پڑھیں: 'وزیراعظم بھی اسرائیل کے جاسوسی سوفٹ ویئر کے ذریعے بھارتی نشانے پر'
انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی باعث تشویش ہے کہ بھارت نے پاکستان کے وزیر اعظم کے موبائل فون کو ٹیپ کیا۔
تبصرے (1) بند ہیں