افغانستان: امریکی صدر کی اشرف غنی کو مکمل تعاون کی یقین دہانی
امریکی صدر جو بائیڈن نے طالبان کی جانب سے بڑھتے ہوئے حملوں اور دباؤ کے پیش نظر افغان صدر اشرف غنی کو امریکی افواج کے انخلا کے بعد بھی مکمل سفارتی اور انسانی تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق وائٹ ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کی اپنے افغان ہم منصب سے ٹیلی فونک گفتگو ہوئی جس میں طالبان کے افغانستان میں بڑھتے ہوئے حملوں، پرتشدد واقعات سمیت دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
مزید پڑھیں: افغان سیکیورٹی فورسز کی درخواست پر امریکی فضائیہ کا طالبان کے ٹھکانوں پر حملہ
دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ طالبان کی موجودہ جارحانہ کارروائیاں اس تنازع کے پر امن حل کے لیے تعاون کے دعوؤں کے بالکل برعکس ہیں۔
واضح رہے کہ جو بائیڈن امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے اختتام کا اعلان کر چکے ہیں جہاں 11 ستمبر 2001 کو طالبان کے حملے کے بعد امریکا نے افغانستان پر چڑھائی کی تھی تاہم رواں سال 11 ستمبر کو انخلا کا عمل مکمل ہونے کے ساتھ ہی یہ 20سالہ جنگ باضابطہ طور پر اختتام کو پہنچے گی۔
تاہم امریکا کی جانب سے افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد طالبان کی پرتشدد کارروائیوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ مختلف علاقوں پر قبضہ کرتے چلے جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں اب وہ افغانستان کے تمام اہم اضلاع پر قبضہ کر چکے ہیں اور متعدد صوبائی دارالحکومتوں کا گھیراؤ کر کے ان پر دباؤ بڑھاتے جا رہے ہیں۔
رواں ہفتے ایک سینئر امریکی جنرل نے کہا تھا کہ افغانستان کے نصف سے زائد اضلاع پر طالبان قبضہ کر چکے ہیں جس سے سیکیورٹی صورتحال تیزی سے بگڑتی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امن معاہدے کے لیے افغان صدر کا عہدہ چھوڑنا ضروری ہے، طالبان
وائٹ ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق جو بائیڈن نے اشرف غنی سے کہا کہ افغانستان میں سیاسی اور پائیدار حل کے لیے سفارتی روابط جاری رکھیں گے۔
ادھر امریکا نے طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں کے پیش نظر ملک سے منتقلی کی درخواست دینے والے ہزاروں افغان باشندوں کی اسپیشل امیگریشن کی درخواست پر تیزی سے کام شروع کردیا ہے تاکہ سنگین خطرات کا شکار افراد کا تحفظ یقینی بناتے ہوئے ان کو امریکا منتقل کیا جا سکے کیونکہ یہ تمام افراد امریکی حکومت کے لیے کام کرتے تھے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکی صدر نے موجودہ کشیدہ صورتحال میں فوری طور پر غیرمتوقع ہجرت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 10کروڑ ڈالر کا ایمرجنسی فنڈ بھی افغانستان کے لیے مختص کردیا ہے جبکہ امریکی سرکاری ایجنسیوں کی انہی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مزید 20کروڑ ڈالر بھی جاری کر دیے ہیں۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے طالبان کی جانب سے مترجم سمیت امریکی حکومت کے لیے مختلف فرائض انجام دینے والے افراد اور املاک کو نشانہ بنانے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں ممکنہ خانہ جنگی کے پیش نظر تاجکستان ایک لاکھ مہاجرین کو جگہ دینے کیلئے تیار
افغانستان سے مقامی باشندوں کے باحفاظت انخلا کا عمل رواں ماہ متوقع ہے اور پہلے مرحلے میں رواں ماہ کے آخر تک چند افراد کو ورجینیا میں امریکی فوجی اڈے پر اتارا جائے گا اور ان تمام افراد کا ویزہ کا عمل اختتامی مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔
ترجمان جلینا پورٹر نے کہا کہ ہم مختلف افراد پر حملوں، املاک کو نقصان پہنچانے اور پرتشدد واقعات کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ روز طالبان ترجمان سہیل شاہین نے کہا تھا اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے اور نئی افغان حکومت کے قیام تک امن قائم نہیں ہو سکتا۔
موجودہ افغان صدر اشرف غنی اکثر یہ موقف اپناتے رہے ہیں کہ وہ اس وقت تک صدارت کے منصب پر فائز رہیں گے جب تک نئے انتخابات اگلی حکومت کا تعین نہیں کردیتے۔