• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

پاک ۔ افغان بارڈر پر نیم فوجی دستوں کی جگہ فوج تعینات

شائع July 24, 2021
وزیر داخلہ نے کہا کہ اب نیم فوجی دستوں کو تبدیل کرنے کے بعد فوج کے باقاعدہ دستے سرحد کا انتظام سنبھال رہے ہیں — فائل فوٹو: اے پی پی
وزیر داخلہ نے کہا کہ اب نیم فوجی دستوں کو تبدیل کرنے کے بعد فوج کے باقاعدہ دستے سرحد کا انتظام سنبھال رہے ہیں — فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ پاکستان نے پاک ۔ افغان سرحد کے ساتھ فرنٹیئر کانسٹیبلری، لیویز فورس اور دیگر نیم فوجی دستوں کو فرنٹ لائن پوزیشنز سے منتقل کردیا ہے کیونکہ فوج نے ان مقامات پر تعیناتی شروع کردی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ کے ماتحت کام کرنے والی ایف سی بلوچستان اور نیم فوجی دستے کو سرحدی گشت سے واپس بلایا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: افغانستان کی نئی سیاسی صورتحال کیلئے تیار رہنے کی ضرورت ہے، شیخ رشید

وزیر داخلہ نے کہا کہ اب نیم فوجی دستوں کو تبدیل کرنے کے بعد فوج کے باقاعدہ دستے سرحد کا انتظام سنبھال رہے ہیں۔

شیخ رشید نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ سرحد پار غیر مستحکم صورتحال کے پیش نظر کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ فیصلہ افغانستان سے آنے والے مہاجرین کی آمدورفت کو روکنے اور پاکستان میں مسلح جوانوں اور عسکریت پسندوں کے داخلے کو روکنے کے لیے کیا گیا۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ فرنٹیئر کانسٹیبلری، لیویز، رینجرز سمیت نیم فوجی دستے سرحدوں پر تعینات تھے تاکہ غیر قانونی تارکین وطن، اسمگلنگ وغیرہ سمیت دیگر امور سے نمٹا جاسکے تاہم افغانستان میں موجودہ غیر مستحکم صورتحال کا تقاضہ ہے کہ سرحد کے ساتھ باقاعدہ فوجی دستے تعینات کیے جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: وزارت داخلہ نے تمام غیر ملکیوں کو رجسٹرڈ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، شیخ رشید

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بابر افتخار نے حال ہی میں ایک ٹی وی چینل پر کہا تھا کہ فوج سرحدوں کی نگرانی کر رہی ہے اور اس اقدام سے افغانستان کی سرزمین یا ایرانی حدود سے تنازعات میں اضافے کو روکنے میں مدد ملے گی۔

بعد ازاں مسلح افواج کے ذرائع نے بتایا تھا کہ موجودہ منظر نامے میں سب سے سنگین چیلنج صرف مہاجرین یا مہاجرین کی آڑ میں دہشت گردوں کی آمد کو روکنا ہی نہیں ہے، بلکہ افغان اہلکاروں یا طالبان جنگجوؤں کی نقل و حرکت بھی ہے۔

ایک افسر نے بتایا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ جولائی کے شروع میں ایک ہزار سے زیادہ افغان اہلکار طالبان کے ڈر سے تاجکستان میں فرار ہوگئے، لیکن افغانستان کے شمالی علاقوں میں طالبان کی موجودگی اتنی مضبوط نہیں ہے جتنی پاکستان سے متصل علاقوں میں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ لہٰذا اگر افغان اہلکار لڑائی کرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوئے تو امکان ہے کہ طالبان ان کا پیچھا کریں گے اور تنازع پاکستان کے اندر پھیل جائے گا۔

مزید پڑھیں: افغان مہاجرین کی متوقع آمد: پاکستان کا ’ایرانی ماڈل‘ اپنانے کا امکان

انہوں نے بتایا کہ پاکستان نہیں چاہتا کہ افغان فضائیہ، طالبان پر حملہ کرنے کے لیے بغیر اجازت ہماری فضائی حدود استعمال کرے اور جوابی کارروائی میں عسکریت پسند پاکستانی مقامات پر حملہ کرکے ایک نیا مسئلہ کھڑا کردیں۔

علاوہ ازیں وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ افغان سیاست دان اور ان کی عسکری قیادت اپنے مسائل سے نمٹنا سیکھیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ پاکستانی سرزمین کسی بھی طرح افغان تنازع میں استعمال ہو اور ہم نے اس پالیسی کی افغان قیادت کو یقین دہانی کرائی ہے‘۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024