افغانستان میں ممکنہ خانہ جنگی کے پیش نظر تاجکستان ایک لاکھ مہاجرین کو جگہ دینے کیلئے تیار
افغانستان میں امریکا کے زیر قیادت فوجی دستوں کے انخلا کے بعد جھڑپوں میں اضافہ ہوگیا ہے جس کو مد نظر رکھتے ہوئے تاجکستان کے سینئر حکام نے کہا ہے کہ ان کا ملک تقریباً ایک لاکھ افغان مہاجرین کا خیر مقدم کرنے کی تیاری کررہا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق طالبان جنگجو افغانستان کے بیشتر علاقوں پر قبضہ حاصل کرچکے ہیں، پینٹاگون نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان آدھے سے زیادہ افغانستان پر قبضہ حاصل کر چکے ہیں۔
تاجکستان میں ہنگامی کمیٹی کے نائب سربراہ امام علی ابراہیم زدہ نے بتایا کہ سابق سویت ریپبلک میں پہلے ہی سرحد سے متصل صوبے کھاتلون اور گورنو بدخشاں میں 2 وئیر ہاؤسز قائم ہیں جہاں مہاجرین کو رکھا جاسکتا ہے۔
تاجکستان میں تاریخ کی سب سے بڑی فوجی مشقیں
دوسری جانب ڈان اخبار میں شائع ہونے والی غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان کے قبضے میں روز بروز اضافے کو دیکھتے ہوئے تاجکستان نے اپنی مسلح افواج کی جنگی تیاریوں کی جانچ پڑتال کے لیے جمعرات کو ملک میں تاریخ کی سب سے بڑی فوجی مشقیں منعقد کیں۔
مزید پڑھیں: اسپن بولدک کا کنٹرول واپس لینے کیلئے افغان فورسز کی طالبان سے لڑائی
تاجکستان کے صدر امام علی رحمٰن کے حکم پر وسطی ایشیائی ملک کی سیکیورٹی فورسز کے 2 لاکھ 3 ہزار اہلکار صبح چار بجے ٹیسٹ کے لیے الرٹ ہوئے۔
تاجکستان نے افغانستان کے سرحدی علاقے دوشنبے میں فوج کو مزید مستحکم کرنے کے لیے 20 ہزار فوجیوں پر مشتمل دستے کو وہاں منتقل کر دیا۔
سابقہ سویت ریاست میں 30 سال کے بعد تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلح افواج کا اس قسم کا جائزہ لیا گیا ہے۔
ان مشقوں میں تاجک بری، بحری، فضائی فوجی دستوں کی جانب سے استعمال کیے جانے والے تمام ہتھیاروں کی ٹیسٹنگ بھی کی گئی۔
صدر امام علی رحمٰن کی سربراہی میں کیا جانے والا آپریشن تاجکستان کے سرکاری چینل پر دکھایا گیا، جسے تاجکستان کے صدر نے تاجک خطے میں 'امن و استحکام کے دفاع کے لیے تیار ہوجائیں' کا نام دیا۔
انہوں نے کہا کہ پڑوسی ملک اسلامی جمہوریہ افغانستان، خاص طور پر ہماری ملک کی سرحد سے متصل شمالی خطے میں حالات انتہائی پیچیدہ اور غیر یقینی صورت حال کا شکار ہیں۔
تاجک صدر کا کہنا تھا کہ حالات دن بدن بلکہ ہر گزرتے وقت کے ساتھ مزید پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔
انہوں نے مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی کہ 'ممکنہ خطرات سے نمٹنے کیلئے اعلیٰ سطح پر جنگی تیاریوں اور ریاست کی سرحدوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں'۔
امام علی رحمٰن، جو 1994 سے تاجکستان پر حکمرانی کر رہے ہیں، انہوں مذکورہ صورت حال کے حوالے سے اپنے روسی اتحادی صدر ولادمیر پیوٹن سے بھی بات کی۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان: عالمی طاقتوں کا طالبان سے عید پر جارحانہ کارروائیاں روکنے کا مطالبہ
ادھر کریملن نے ایک جاری بیان میں کہا کہ انہوں نے افغانستان کے حالات پر تبادلہ خیال کیا اور تاجکستان کی جانب سے ابتدائی اقدام کے طور پر فون کال کی گئی۔
واضح رہے کہ بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد رواں ہفتے طالبان نے افغانستان کے بڑے حصے پر قبضہ حاصل کرلیا ہے جس میں تاجکستان سے متصل سرحدی علاقہ شیر خان بندر بھی شامل ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے روسی خبر رساں ادارے 'آر آئی اے نووستی' کو بتایا کہ تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور ایران سے متصل سرحدوں پر تقریباََ 90 فیصد تک ان کا کنٹرول ہے لیکن ان کے دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہوسکتی۔