• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

عراق: مارکیٹ میں دھماکے سے 21 افراد ہلاک، 33 زخمی

شائع July 20, 2021
دھماکے میں ہلاک ہونے والوں میں 4 خواتین اور 4 بچے بھی شامل ہیں — فوٹو: اے ایف پی
دھماکے میں ہلاک ہونے والوں میں 4 خواتین اور 4 بچے بھی شامل ہیں — فوٹو: اے ایف پی

عراق کے دارالحکومت بغداد کے مصروف بازار میں دھماکے کے نتیجے میں 21 افراد ہلاک اور 33 زخمی ہوگئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دھماکا صدر سٹی کے نواحی علاقے میں ہوا جہاں مارکیٹ میں عوام کی بڑی تعداد عیدالاضحیٰ سے قبل اشیائے خورونوش کی خریداری میں مصروف تھی۔

دھماکے کے بعد سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی فوٹیج میں خون میں لت پت متاثرین اور خوفزدہ لوگوں کو چیختے ہوئے دیکھا گیا۔

وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق دھماکے میں ہلاک ہونے والوں میں 4 خواتین اور 4 بچے بھی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: بغداد میں دو خود کش بم دھماکے، 28 افراد ہلاک

عراقی وزارت داخلہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق بغداد کے مشرق میں موجود صدر سٹی کے وحیلت بازار میں ہونے والے دہشت گردی کے حملے میں دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول ڈیوائس کا استعمال کیا گیا، جس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔

دھماکے کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ نے قبول کرنے کا دعویٰ نہیں کیا۔

بغداد آپریشنز کمانڈ، جوائنٹ ملٹری اور وزارت داخلہ کی محکمہ سیکیورٹی کی جانب سے دھماکے کی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔

اس سے قبل جنوری میں بغداد کے مصروف بازار میں ہونے والے ایک ساتھ دو خودکش دھماکوں میں 32 افراد ہلاک ہوئے تھے جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔

مذکورہ دھماکا شہر میں گزشتہ تین سال میں ہونے والا خطرناک ترین دھماکا تھا، بغداد میں اس طرح کی پرتشدد کارروائیاں فرقہ ورانہ قتل و غارت گری کے دوران عام تھیں جس کے بعد 2003 میں امریکا نے عراق پر حملہ کیا تھا، بعد ازاں داعش نے عراق کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا اور بغداد کو بھی اپنا ہدف بنایا۔

سالوں تک پرتشدد واقعات کے بعد بغداد میں دہشت گردی کے حملے بہت کم ہو گئے تھے۔

سال 2017 کے اختتام میں عراق نے اعلان کیا تھا کہ تین سال کی بھرپور مہم کے بعد داعش کو شکست دے دی گئی ہے۔

تاہم صحرائی اور پہاڑی علاقوں میں گروپ کے سلیپر سیلز نے کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں اور وہ خاص طور پر سیکیورٹی فورسز یا سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنا رہے ہیں لیکن ان حملوں میں کم جانی نقصان ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عراق: راکٹ حملے میں غیر ملکی ہلاک، متعدد 'امریکی کنٹریکٹرز' زخمی

داعش کے خلاف عراق کی مہم کی حمایت کرنے والے امریکا کے زیر قیادت اتحاد نے گزشتہ سال عراقی فورسز کی بڑھتی ہوئی صلاحیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی افواج کی تعداد کم کردی تھی۔

امریکا، جس کی اتحادی فوج میں اہلکاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، کی فوج کی تعداد کم ہو کر ڈھائی ہزار رہ گئی ہے۔

یہ امریکی فوجی ٹریننگ، ڈرون نگری اور فضائی حملے کرتے ہیں جبکہ شہری علاقوں کی سیکیورٹی عراقی فورسز نے سنبھال رکھی ہے۔

گزشتہ روز دہشت گردی کا نشانہ بننے والے صدر سٹی کا نام معروف عالم دین محمد الصدر کے نام پر رکھا گیا تھا۔

ان کے بیٹے مقتدیٰ صدر، جن کے لاکھوں پیروکار ہیں اور نیم فوجی دستوں کے سربراہ ہیں، کا عراق کی سیاست میں اہم کردار ہے اور انہوں نے کئی مرتبہ امریکا اور ایران کے اثر و رسوخ کے خلاف احتجاج کیا ہے۔

مقتدیٰ صدر نے اکتوبر میں منعقد ہونے والے آئندہ الیکشن کا بائیکاٹ کیا ہے جو وزیر اعظم مصطفیٰ الخادمی کے لیے بڑا دھچکا ہے جنہوں نے جمہوریت نواز کارکنان کے مطالبے پر قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024