پیپلز پارٹی کا سیکیورٹی پر تبادلہ خیال کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ
اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر رضا ربانی نے ملک میں داخلی سیکیورٹی کی صورتحال کو بگڑتی ہوئی قرار دیتے ہوئے پارلیمنٹ کا اِن کیمرا مشترکہ اجلاس بلانے اور قومی سلامتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی (پی سی این ایس) کے قیام پر زور دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی کے سینیٹر نے ایک بیان میں داخلی سلامتی کے امور، جس کا سامنا علاقائی صورتحال کے تناظر میں اور افغانستان سے امریکی فوج کے مکمل انخلا کے بعد ملک کو ہو سکتا ہے، سے نمٹنے کے لیے قومی اتفاق رائے کے حصول کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ تجویز کیا۔
رضا ربانی نے مطالبہ کیا کہ دفاع، داخلہ اور خارجہ امور کی وزارتوں کے عہدیدار سیکیورٹی صورتحال پر بحث سے قبل پارلیمنٹیرینز کو ایک جامع بریفنگ دیں۔
مزید پڑھیں: پارلیمنٹ ہاؤس میں سیکیورٹی اقدامات، مہمانوں، مسلح گارڈز کے داخلے پر پابندی
پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث، بریفنگ اور فوجی حکام سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی روشنی میں انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی سے متعلق نئی پارلیمانی کمیٹی کو اس کے بعد اتفاق رائے سے متعلق حکمت عملی کا ایک مسودہ تیار کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ حکمت عملی کو پھر منظوری کے لیے پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔
اس سے قبل قومی سلامتی سے متعلق ایسی ہی پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ رہنے والے رضا ربانی نے کہا کہ ’اس حکمت عملی کو 12 اپریل 2009 کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور شدہ معاہدے کی شرائط کی روشنی میں پڑھا جانا چاہیے‘۔
فوجی عہدیداران، جن میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے یکم جولائی کو ابھرتی ہوئی علاقائی صورتحال پر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں تمام جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں اور 'پی سی این ایس' کے اراکین کو ایک جامع بریفنگ دی تھی۔
تاہم حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سمیت سیاسی جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ کہتے رہے ہیں کہ پارٹی کے سینئر اراکین کو محض بریفنگ کا کوئی فائدہ نہیں۔
اس وقت قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر پی سی این ایس کی سربراہی کر رہے ہیں جس میں تمام جماعتوں کے اراکین شامل ہیں۔
رضا ربانی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ داخلی سلامتی کی صورتحال بدستور خراب ہوتی جارہی ہے کیونکہ گزشتہ دو ماہ کے دوران دہشت گردی کی 150 سے زائد کارروائیاں ہوچکی ہیں، خاص طور پر خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع اور بلوچستان دہشت گردی کا ہدف بن رہے ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ ’جیسے جیسے افغانستان میں صورتحال سامنے آتی جائے گی انتہا پسندی میں اضافہ، سلیپر سیلز کی بحالی، بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' اور دیگر ایجنسیوں کے تعاون سے دہشت گردی کی کارروائیوں کے بارے میں صورتحال مزید واضح ہوتی جائے گی، افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا اور اس کے بعد کابل کے سفیر کی واپسی جیسے واقعات پاکستان کو دباؤ میں ڈالیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان کے علاقے پسنی میں دہشت گردوں کا سیکیورٹی فورسز پر حملہ
پیپلز پارٹی کے سینیٹر نے کہا کہ اگر افغان مہاجرین کی آمد جیسے امور سامنے آئے تو صرف سرحد پر باڑ کے ذریعے اس معاملے سے نمٹا نہیں جاسکتا، داخلی اور بین الاقوامی سطح پر ایک جامع منصوبے کی ضرورت ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ دوسری جانب خطے میں امریکا کا کردار اس کے انخلا کے نتیجے میں ختم نہیں ہوگا کیونکہ امریکا اپنی سرجیکل اسٹرائیک کو آسان بنانے کے لیے خطے کے ممالک کے ساتھ پراکسیز یا معاہدوں کے ذریعے خطے میں موجودگی کا خواہاں ہوگا۔
رضا ربانی نے کہا کہ داسو میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے کی مذمت کی گئی تھی لیکن اس سے پاکستان کو جن پیچیدہ صورتحال کا سامنا ہے اس کی ایک نئی جہت ظاہر ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ اس واقعے کا مقصد پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اور پاکستان اور چین کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات کو زیر بحث لانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اس جیسے اور دیگر چیلنجز پہلے ہی ہمارے دروازے پر دستک دے رہے ہیں، لہٰذا ایک قومی اور مشترکہ انداز اپنانے کی ضرورت ہے‘۔