جرمنی میں مزید سیلاب کا خدشہ، ہلاکتیں 80 تک پہنچ گئیں
جرمنی کے مغربی حصے میں ایک اور ڈیم میں طغیانی کے باعث سیلاب کا خدشہ پیدا ہوگیا جبکہ پہلے سے جاری سیلاب کی صورت حال کے باعث ہلاکتوں کی تعداد 80 سے زائد ہوگئی، کئی سالوں بعد جرمنی میں اس طرح بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق شمالی ریاست نور ڈر ائن ویسٹ فالن اور رائنلینڈ-پالاتینات کے قصبوں اور گاؤں کو بپھرے ہوئے دریا نے نگل لیا، جس سے وہاں کی برادریاں پریشان ہیں۔
رائنلینڈ-پالاتینات کی وزیر مالو ڈریئر نے بروڈکاسٹر 'زیڈ ڈی ایف' کو بتایا کہ مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، سیلاب کے نتیجے میں صرف ان کی ریاست میں 50 سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انفرا اسٹکچر مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے اور دوبارہ تعمیر کے لیے زیادہ وقت اور رقم درکار ہوگی۔
ضلعی انتظامیہ نے سوشل میڈیا سائٹ فیس بک پر بتایا کہ شمالی ریاست نور ڈر ائن ویسٹ فالن کے جنوبی ضلع اھر ویلر میں تقریباََ 1300 شہری لاپتا ہیں۔
مزید پڑھیں: جرمنی میں سیلاب سے تباہی، 6 افراد ہلاک، 30 لاپتا
واضح رہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں موبائل فون نیٹ ورکس کو نقصان پہنچا ہے، جس کا مطلب یہ ہے دوست و احباب اپنے پیاروں سے رابطہ کرنے سے قاصر ہیں۔
کولون کی ضلعی حکومت نے سوشل میڈیا پر بتایا کہ جمعے کی صبح شمالی کولون کے قریب واقع قصبے ارفتشتات میں متعدد مکانات گر گئے اور ریسکیو ٹیمیں رہائش پذیر افراد کو امداد فراہم کرنے کے لیے کوشش کر رہی ہیں جو خبردار کرنے کے باوجود اپنے گھر واپس آئے تھے۔
اس حوالے سے مزید بتایا گیا کہ کئی لوگ اب بھی گھروں میں موجود ہیں اور متعدد لاپتا ہوچکے ہیں، گیس کی لیکیج کے باعث کشتی کے ذریعے ان پھنسے ہوئے افراد نکالنے میں ٹیموں کو مزید دشواری سامنا ہے۔
اس علاقے کے اطراف میں متعدد سڑکوں کو سیلاب کے باعث ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
بیلجئیم کی سرحد کے قریب قائم ایک ڈیم میں رات گئے طغیانی آئی جبکہ ایک اور ڈیم بھی ایسی ہی صورت حال کی زد میں ہے، ملک کے متعدد ڈیم پہلے ہی ٹوٹ چکے ہیں۔
مزید پڑھیں: جرمنی سمیت مغربی یورپ میں بارش اور سیلاب سے تباہی، 50 افراد ہلاک
جرمنی میں حالیہ قدرتی آفت سے ہونے والی ہلاکتیں، 1962 میں آنے والے سمندری طوفان کے باعث ہونے والی ہلاکتوں، جس میں 340 افراد ہلاک ہوگئے تھے، اور 1998 میں ہونے والے ٹرین حادثے میں 101 افراد کی ہلاکت کے بعد سب سے زیادہ ہیں۔
علاوہ ازیں 2002 میں دریا الب میں سیلاب کے باعث مشرقی جرمنی میں 21 اور وسطی یورپین میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جسے اس وقت میڈیا نے صدی کا سب سے بڑا سیلاب قرار دیا تھا۔
شمالی ریاست نور ڈر ائن ویسٹ فالن کی پارلیمنٹ نے جمعہ کو سیلاب کی صورت حال پر بات چیت کے لیے اجلاس طلب کرلیا۔
جرمن وزیر داخلہ ہوسٹ سیہوفر نے میگزین 'اشپیگل' کو بتایا کہ وفاقی حکومت کی کوشش ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو متاثرہ اضلاع کے ساتھ مالی تعاون کریں اور اس حوالے سے اقدامات کے لیے امدادی پیکیج منظوری کے لیے کابینہ میں پیش کیا جانا چاہیے۔