پاکستان میں 17 سے 19 جولائی تک افغان امن کانفرنس ہوگی، ترجمان دفترخارجہ
ترجمان دفترخارجہ زاہد حفیظ چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان 17 سے 19 جولائی تک افغانستان پر امن کانفرنس کی میزبانی کرے گا اور افغان قیادت نے شرکت کی یقین دہائی کرا دی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے صحافیوں کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران بتایا کہ پاکستان 17 سے 19 جولائی تک افغانستان پر امن کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے، افغان قیادت اور دیگر رہنماؤں کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا حامد کرزئی کو ٹیلی فون، افغانستان کے حوالے سے کانفرنس میں شرکت کی دعوت
انہوں نے کہا کہ افغان قیادت نے کانفرس میں شرکت کی یقین دہانی کروائی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمیشہ سے افغانستان میں دیرپا قیام امن و استحکام کا خواہاں رہا ہے، افغانستان میں سیکیورٹی کے معمولی خلا کو دہشت گرد عناصر اور دیگر قوتیں پاکستان کے خلاف استعمال کر سکتی ہیں۔
ترجمان دفترخارجہ نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مزید افغان مہاجرین کی میزبانی کا متحمل نہیں ہو سکتا، خطے کے ربط، ترقی اور خوش حالی کے لیے پرامن افغانستان کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسپن بولدک-چمن سرحدی گزرگاہ سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان وسیع بنیادوں پر تجارت ہوتی ہے، اسی لیے پاکستان اسپن بولدک-چمن سرحدی گزرگاہ جلد کھولنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ترکی کی امن کاوشوں کو پاکستان قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، ترکی نے افغانستان پر قلب ایشیا، استنبول پراسس میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ترجمان دفترخارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں سیکیورٹی امور کا حتمی فیصلہ صرف افغان کریں گے، افغانستان کے مسئلے کا حل افغانوں نے ازخود تلاش کرنا ہے۔
وزیراعظم ازبکستان کا دورہ
ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ وزیر اعطم عمران خان ازبکستان کا دورہ کر رہے ہیں، ان کے ہمراہ ایک اعلیٰ سطح کا وفد بھی ازبکستان جائے گا جہاں مختلف علاقائی، باہمی اور عالمی امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان، ازبکستان ترجیحی تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دینے پر متفق
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کا ازبک بزنس فورم سے خطاب بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کی اور اس اجلاس میں خطے کے جیو اکنامک پوٹینشل اور علاقائی معاملات کا جائزہ لیا گیا۔
زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ وزیرخارجہ نے ایس سی او کے اجلاس کے دوران تاجکستان، چین، روس، قازقستان، افغانستان اور ازبکستان کے ہم منصبوں سے بھی ملاقات کی۔
انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ نے کووڈ- 19 کے حوالے سے مشترکہ کاؤشوں پر بھی زور دیا۔
بس حادثے کو دہشت گردی کے زاویے سے بھی دیکھا جا رہا ہے
داسو میں ہونے والے بس حادثے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ بس حادثے کو دہشت گردی کے زاویے سے بھی دیکھا جا رہا ہے، ممکنات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ چینی اور پاکستانی ورکرز کو لے جانے والی بس کو پیش آنے والے کی تحقیقات ہو رہی ہے۔
ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ اپر کوہستان حادثہ کے فوری بعد چینی سفارت خانے اور بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ سے رابطہ کیا گیا جبکہ شدید زخمیوں کو فوری طور پر سی ایم ایچ راولپنڈی منتقل کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ اپر کوہستان بس دھماکے میں کسی بھی آپشن کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔
مزید پڑھیں: داسو واقعے کی ابتدائی تفتیش میں بارودی مواد کی موجودگی کی تصدیق ہوگئی،فواد چوہدری
ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ پاکستان نے بھارت کی دہشت گردوں کی مالی معاونت کا معاملہ اٹھایا ہے، پاکستان نے ماضی میں بھی اس حوالے سے ناقابل تردید شواہد پیش کیے تھے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت دہشت گردی کو ریاستی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اس سےقبل بھارت کی دہشت گردی کے ثبوت فراہم کر دیے ہیں، بھارت ہمیشہ سے شواہد کے بغیر الزامات لگاتا رہا ہے، پہلے بھارت نے کبوتروں کے ذریعے جاسوسی کے الزامات بھی لگائے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت ایسے الزامات سے خود ہر جگہ اپنا مذاق بنا رہا ہے، اب وہ کبوتروں کے بعدڈرون کے حوالے سے الزامات عائد کر رہا ہے۔
ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ پہلے دفتر خارجہ اور پھر سفارت خانے سے ویکسینیشن سرٹیفیکیٹ کی تصدیق کرائی جائے۔
انہوں نے کہا کہ دفتر خارجہ اس حوالے سے ایسے پاکستانیوں کو ہر ممکن سہولیات فراہم کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ویکسینیشن پر سعودی عرب سے درخواست کی ہے کہ چینی ویکسین کو عالمی ادارہ صحت بھی تسلیم کرتا ہے، اس کو تسلیم کیا جائے کیونکہ پاکستان میں زیادہ تر افراد نے آسانی سے دستیاب ہونے کے باعث چینی ویکسین لگوائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کووڈ پر دنیا کے تمام ممالک اپنے ماہرین صحت کے مشورے سے اقدامات کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ترکی نے 14 روز کے بجائے قرنطینہ کو پاکستان کی درخواست پر 10 روز کر دیا ہے، اسی طرح ہم برطانیہ سے بھی قرنطینہ کے معاملے پر مکمل رابطے میں ہیں۔