افسوس کہ انگلینڈ کے کوچ 'چک دے انڈیا' کے شاہ رخ خان نہ بن سکے لیکن...
یورو کپ 2020ء اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوا لیکن اپنے پیچھے کئی جذباتی مناظر، بہت سی حیرت انگیز کارکردگیاں، کئی شاندار گول اور یادگار کہانیاں چھوڑ گیا۔
ڈنمارک کے Christian Eriksen جب فن لینڈ کے خلاف پہلے ہاف کے آخری منٹوں میں حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے میدان میں گرتے ہیں تو ساتھی کھلاڑی ان کے اور طبّی عملے کے گِرد دیوار بنالیتے ہیں تاکہ یہ روح فرسا منظر Eriksen کے اہلِ خانہ اور ناظرین نہ دیکھ سکیں۔ ان کی حالت انتہائی تشویشناک ہوجاتی ہے۔
ساتھی کھلاڑی خود بھی انتہائی جذباتی ہوجاتے ہیں اور بعض اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں رکھ پاتے ہیں۔ مگر چند گھنٹوں بعد وہی ساتھی کھلاڑی میچ پورا کرتے ہیں اور Eriksen کی حالت بھی سدھرنے لگتی ہے۔
اپنے ساتھی کھلاڑی کے ساتھ اس طرح کا جذباتی رشتہ اور فٹبال کے کھیل سے ایسا جذباتی لگاؤ اس سے پہلے کم ہی دیکھا دیکھا گیا۔
اٹلی کے گول کیپر Gianluigi Donnarumma نے سیمی فائنل اور پھر فائنل میں 3، 3 پینلٹیز روک کر حیرت انگیز کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ایسی شاندار کارکردگی کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
اٹلی ہی کی ٹیم کے 2 سینیئر سینٹر بیک Leonardo Bonucci اور کپتان Giorgio Chiellini پورے ٹورنامنٹ میں گول پوسٹ کے سامنے دیوار بنے کھڑے رہے، ایسا شاندار دفاع اور بہترین کارکردگی یقیناً سنہرے حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔
چیک ری پبلک کے Patrik Schick کا وہ شاندار گول جو انہوں نے ہاف لائن سے کِک لگا کر کیا، وہ یورو کپ 2020ء کا خوبصورت ترین گول تھا اور یقیناً کئی سال تک اس گول کے چرچے رہیں گے۔
2018ء کے ورلڈ کپ سے باہر ہونے کے بعد اٹلی کی ٹیم جس طرح ناقابلِ شکست ٹیم بنی، نہ صرف دفاع میں بلکہ اٹیک میں بھی ایک بار پھر دنیا کی بہترین سائیڈ بن کر سامنے آئی اور پھر یوروپین چیمپیئن کا خطاب اپنے نام کیا، اس کا سہرا یقیناً کوچ Roberto Mancini کے سر جاتا ہے جن کی کہانی بہتوں کے لیے سبق آموز ثابت ہوسکتی ہے۔
لیکن یہاں ہم جس کہانی کو بیان کرنے جارہے ہیں اس کا مرکزی کردار بھی ایک فٹبال ٹیم کا موجودہ کوچ اور سابق فٹبالر ہے۔
کہانی کی ابتدا 26 جون 1996ء میں لندن کے ویمبلے اسٹیڈیم میں کھیلے جانے والے یورو کپ کے سیمی فائنل میچ سے ہوتی ہے۔ انگلینڈ اور جرمنی کی ٹیمیں آمنے سامنے ہوتی ہیں، تیسرے ہی منٹ میں انگلینڈ کے Alan Shearer ایک کارنر پر شاندار ہیڈر سے گول کردیتے ہیں اور اپنی ٹیم کو ایک صفر کی سبقت دلا دیتے ہیں۔
پڑھیے: 52 سال بعد اٹلی کا خواب تو پورا ہوگیا، مگر انگلینڈ کو مزید صبر کرنا ہوگا
جرمنی کی ٹیم جلد ہی واپسی کرتی ہے اور 16ویں منٹ میں جرمنی کے Stefan Kuntz گول کردیتے ہیں۔ یوں مقابلہ ایک ایک گول سے برابر ہوجاتا ہے۔ اور پھر مقررہ وقت کے بعد اضافی وقت میں بھی دونوں ٹیمیں کوئی ٹیم گول نہیں کر پاتیں۔ مجموعی طور پر میچ میں انگلینڈ کا پلڑا بھاری رہتا ہے لیکن وہ مزید گول نہیں کرپاتے، اور اب میچ فیصلہ کُن پینلٹی شوٹ آؤٹ کی طرف چلا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ اس زمانے میں 6، 6 پینلٹیز شوٹس ہوا کرتی تھیں۔
انگلینڈ میدان پر اترتا ہے اور Alan Shearer ،Platt ،Pearce ،Gascoigne ،Tony Sheringham پانچوں گول کرتے ہیں۔
جرمنی کی طرف سے بھی پہلی 5 پینلٹیز پر گول ہوتا ہے۔
اور اب انگلینڈ کی طرف سے آخری پینلٹی کے لیے ان کے نوجوان سینٹر بیک Gareth Southgate آتے ہیں۔ وہ جرمن گول کیپر Andreas Köpke کی داہنی طرف شوٹ لیتے ہیں اور Andreas بھی اسی جانب ڈائیو لگا کر یہ پینلٹی روک لیتے ہیں۔
اب جرمنی کی طرف سے آخری پینلٹی لینے ان کے کپتان Möller آتے ہیں اور گول کرکے جرمنی کو فائنل میں لے جاتے ہیں۔ یوں انگلینڈ کا سفر سیمی فائنل میں ہی ختم ہوجاتا ہے۔
پینلٹی پر بھی گول کرنے کا موقع گنوانے والے نوجوان Gareth Southgate پر بہت تنقید ہوتی ہے اور انگلینڈ میں کئی جذباتی لوگ اسے بُرا بھلا کہتے ہیں۔
اب یہیں پر آپ کو روک کر ایک اور کہانی کی طرف لے جاتا ہوں۔
یہ کہانی ایک بھارتی فلم کی ہے۔ چند سال پہلے انڈیا میں ایک فلم بنی تھی 'چک دے انڈیا'، جس کا مرکزی خیال بھی مذکورہ بالا کہانی جیسا ہی ہے۔
ہوتا یوں ہے کہ انڈین ہاکی ٹیم کا ایک کھلاڑی جب فائنل میچ میں پاکستان کے خلاف پینلٹی اسٹروک گنوادیتا ہے تو پورا بھارت اسے بُرا بھلا کہتا ہے۔ اس کے گھر پر عوام پتھراؤ کرتے ہیں، یہاں تک کہ اس کے مسلمان ہونے کی وجہ سے مذہبی تعصب کی بنیاد پر غدار تک کا الزام بھی اس پر لگایا دیا جاتا ہے۔ وہ کھلاڑی دلبرداشتہ ہوکر گمنامی کے اندھیروں میں دھکیل دیا جاتا ہے۔
تاہم وہ ہمیشہ سے اپنے اوپر لگے اس داغ کو مٹانے کی تگ و دو میں رہتا ہے اور اسی غرض سے وہ انڈین وومن ہاکی ٹیم کا کوچ بن جاتا ہے۔ کوچ بن کر وہ نہ صرف ایک بکھری ہوئی ٹیم کو یکجا کرتا ہے بلکہ اپنی کمال مہارت سے ایک مردہ ٹیم میں جان ڈال دیتا ہے۔ پھر اپنی قابلیت اور اپنی صلاحیتوں سے ٹیم میں ایسی روح پھونکتا ہے کہ ایک انتہائی نچلے درجے کی کمزور ٹیم ہاکی کا عالمی کپ جیت لیتی ہے۔
یہ ایک حقیقی کہانی پر مبنی بھارتی فلم تھی جس میں مرکزی کردار شاہ رخ خان نے ادا کیا اور بڑی ہی شاندار اداکاری سے اس فلم کو سُپر ہٹ بنایا۔
اب واپس یورو کپ 1996ء کے سیمی فائنل میچ میں پینلٹی ضائع کرنے والے سینٹر بیک Gareth Southgate کی 25 سال پرانی کہانی کا رخ کرتے ہیں جس کی کڑی موجودہ وقت سے جڑتی ہے۔
دراصل انہوں نے ہی یورو کپ 2020ء میں انگلینڈ ٹیم کے لیے بطورِ کوچ خدمات انجام دی ہیں۔ بظاہر ان کی کہانی چک دے انڈیا کے مرکزی کردار سے گہری مماثلت رکھتی ہے۔ 1996ء میں گنوائی گئی پینلٹی کا داغ دھونے کا موقع انہیں اس وقت میسر آتا ہے جب انہیں 2016ء میں انگلینڈ فٹبال ٹیم کا کوچ بنایا جاتا ہے۔
پہلے وہ 2018ء کے ورلڈ کپ میں ٹیم کو اپنی صلاحیتوں کے ساتھ سیمی فائنل تک لے جاتے ہیں جہاں ان کی ٹیم مقررہ وقت میں کروشیا کے خلاف میچ 1-1 سے برابر کردیتی ہے لیکن اضافی وقت میں کروشیا کی ٹیم 110ویں منٹ میں گول کرکے انگلینڈ کو ورلڈ کپ سے باہر کردیتی ہے۔
لیکن Gareth Southgate ہمت نہیں ہارتے اور اپنی مسلسل محنت و لگن سے انگلینڈ کی ٹیم کو عالمی رینکنگ میں چوتھے نمبر پر لانے میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
پھر یورو کپ 2020ء کا میلہ سجتا ہے اور انگلینڈ کی ٹیم شاندار کھیل پیش کرتی ہے، یہاں تک کہ فائنل میں جگہ بنالیتی ہے۔ فائنل میچ بھی انتہائی سنسنی خیز ثابت ہوتا ہے، مقررہ وقت اور اضافی وقت میں میچ 1-1 گول سے برابر رہتا ہے۔ چنانچہ پینلٹی شوٹ آؤٹ کا مرحلہ آجاتا۔ یہ بڑی ہی دلچسپ بات ہے کہ یہ میچ بھی ویمبلے اسٹیڈیم لندن میں کھیلا جا رہا ہوتا ہے جہاں 25 سال پہلے Gareth Southgate سے پینلٹی ضائع ہوئی تھی۔
چنانچہ Gareth Southgate کو اپنی پینلٹی کا قرضہ اتارنے کا موقع مل جاتا ہے لیکن ان کے زیرِ تربیت 3 نوجوان کھلاڑی پینلٹیز ضائع کردیتے ہیں اور ایک بار پھر ان کی ٹیم فائنل میں پینلٹی شوٹ آؤٹ پر ہار جاتی ہے اور یوں Gareth Southgate فلم چک دے انڈیا والا شاہ رخ خان نہیں بن پاتے۔
تاہم اپنی بہترین حکمتِ عملی اور زبردست صلاحیتوں سے ٹیم انگلینڈ کو 55 سال بعد فائنل تک لانے والے Gareth Southgate لوگوں کے دل ضرور جیت لیتے ہیں۔ آخر میں پریس کانفرنس کے دوران وہ اپنے کھلاڑیوں کا بھرپور دفاع کرتے ہیں اور ساری ذمے داری اپنے اوپر لیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ میرا فیصلہ تھا، میں نے ہی اپنے نوجوان کھلاڑیوں پر اعتماد کیا لیکن ہم اپنی 100 فیصد کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپائے۔ انہوں نے تمام کھلاڑیوں کی تعریف کی اور کہا کہ ہم نے بہترین کھیل پیش کرنے کی کوشش کی لیکن ہماری کارکردگی مزید بہتر ہوسکتی تھی۔ انہوں نے کھلاڑیوں کو بُرا بھلا کہنے والوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور نسلی تعصب کا طعنہ دینے والوں پر تنقید کی‘۔
آپ کو یہ کہانی سنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ انسان ارادی و غیر ارادی خطاؤں کا پتلا ہے۔ ایک مشہور عربی ضرب المثل ہے 'الانسان المرکب النسیان' کہ انسان کا خمیر نسیان (یعنی بھول، چوک) سے گندھا ہوا ہے اور یہ کہ انسان اپنی نفسیات میں بھی ایک اثر پذیر مخلوق ہے جو ہمیشہ سے اپنی محبتوں اور تعصبات کی اثیر ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمیں کسی کھلاڑی پر تنقید کرتے وقت ہمیشہ اپنے جذبات اور تعصبات پر قابو رکھنا چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ کھلاڑی بھی ہماری ہی طرح انسان ہوتے ہیں، لہٰذا ان پر تنقید ضرور کریں لیکن تنقید میں بھی اوّل تو اخلاق کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے اور ثانیاً اپنی محبتوں اور تعصبات کو اس پر حاوی نہیں ہونے دینا چاہیے، نیز تنقید میں تعمیر کا پہلو ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہیے۔
تبصرے (3) بند ہیں