ریلوے کے مستقل ہونے والے 80 ملازمین سے متعلق سروس ٹربیونل کا فیصلہ کالعدم قرار
سپریم کورٹ نے پاکستان ریلوے کے مستقل ہونے والے 80 ملازمین سے متعلق سروس ٹربیونل کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے ملازمین کے خلاف ریلوے کی درخواست پر سماعت کی۔
مزید پڑھیں: ریلوے کے ملازمین کو مستقل کرنے کی پالیسی ختم کر دوں گا، اعظم خان
ریلوے کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ملازمین 2013 میں بھرتی ہوئے جو ریلوے پالیسی 2012 کے قواعد و ضوابط پر پورا نہیں اترتے تھے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ عارضی بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر کی جاتی ہیں اور عارضی بھرتی ہونے والے ملازمین گھروں میں بیٹھ کر تنخواہیں لیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ریلوے میں اسی وجہ سے اتنے حادثات ہوتے ہیں کہ ریلوے میں اب بھی ہر مہینے سیکڑوں کی تعداد میں عارضی بھرتیاں ہوتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا ریلوے ملازمین کی چھانٹیوں کا حکم
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ سیاسی بھرتیوں نے ریلوے کو تباہ کردیا۔
بینچ کے رکن جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ریلوے حکام سیاسی بھرتیاں کر کے انہیں مستقل کرنے کے لیے سیاسی بنیادوں پر پالیسی بناتے ہیں۔
انہوں نے استفسار کیا کہ ریلوے ایک سرکاری ادارہ ہے تو پھر بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر کیوں کی جاتی ہیں؟ اور ریلوے کی 80 فیصد آمدن تنخواہوں اور پنشن میں چلی جاتی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ عارضی ملازمین مستقل کرنے کے لیے تو 2012 میں پالیسی بنائی گئی۔
مزید پڑھیں: ریلوے کا حال بالکل پھٹیچر ہے، سمجھ نہیں آرہا محکمے کا کیا بنے گا، چیف جسٹس
جس پر وکیل ریلوے نے جواب دیا کہ اس پالیسی کا زیر غور ملازمین کے کیس پر اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ پالیسی 2012 میں آئی جس کا اطلاق 31 دسمبر 2011 تک کے عارضی ملازمین پر تھا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے پاکستان ریلوے کے مستقل ہونے والے 80 ملازمین سے متعلق سروس ٹربیونل کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
ٰخیال رہے کہ جون 2020 میں چیف جسٹس آف پاکستان نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھےکہ ریلوے کا حال بالکل پھٹیچر ہے، ریلوے افسران بڑی تنخواہیں لے رہے ہیں جبکہ اہم عہدوں پر عارضی تقرر ہو رہا ہے، سمجھ نہیں آرہا ریلوے کا کیا بنے گا۔