افغانستان میں خانہ جنگی ہوئی تب بھی پاکستان میں اثرات نہیں آنے دیں گے، فواد چوہدری
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ اگر افغانستان میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوئی تب بھی پاکستان کے اندر اس کے اثرات نہیں آنے دیں گے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ میں فواد چوہدری نے کہا کہ 'افغانستان میں بدلتی صورتحال پر گہری نظر ہے، پوری کوشش ہے کابل میں ایک پرامن اور سب کی رائے پر مبنی نظام حکومت کے ذریعے آگے بڑھا جائے، لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو بھی ہاکستان کے اندر اس کے اثرات نہیں آنے دیں گے'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہماری افغان پالیسی پاکستان کے مفاد میں ہے'۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ 'وزیر اعظم عمران خان کہہ چکے ہیں کہ امن میں حصہ دار ہوں گے لیکن جنگ میں نہیں، پاکستان کی زمین افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی اور امید ہے کہ افغانستان کی سرزمین بھی پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ملک کی سیاسی و پارلیمانی قیادت افغانستان میں عدم مداخلت کے اصول پر متفق ہے'۔
واضح رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات کا افغانستان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور اس کے پاکستان کے اندر ہونے والے اثرات پر تشویش کے متعلق پاکستانی حکام کے بیانات کے حوالے سے یہ تازہ بیان ہے۔
جمعہ کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر اعظم کے مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کو بریفنگ کے دوران خبردار کیا تھا کہ افغانستان میں صورتحال بگڑتی جارہی ہے۔
معید یوسف نے کہا تھا کہ افغانستان میں حالات بہت خراب ہیں اور صورتحال ہمارے قابو سے باہر ہے۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان کے حاوی ہونے پر 'ٹی ٹی پی' کو تقویت مل سکتی ہے، وزیر خارجہ
انہوں نے خبردار کیا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، مہاجرین کی شکل میں پاکستان میں حملے کر سکتی ہے اور دہشت گرد، مہاجرین کے بھیس میں پاکستان میں آسکتے ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر افغانستان میں خانہ جنگی ہوئی تو پاکستان مزید مہاجرین کو نہیں سنبھال سکے گا۔
اگلے روز پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بابر افتخار نے واضح کیا تھا کہ پاکستان، افغان امن عمل کا سہولت کار ہے ضامن نہیں ہے۔
افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے نجی چینل 'اے آر وائی' سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج نے کہا کہ 'افغان امن عمل کے بہت سے پہلو ہیں اور اس وقت یہ ایک انتہائی اہم مرحلے پر ہے اور ہر کوئی یہ سمجھتا ہے'۔
مزید پڑھیں: افغان امن عمل میں پاکستان سہولت کار ہے، ضامن نہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر
انہوں نے کہا کہ جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو پاکستان نے پوری خلوص نیت سے اس امن عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے جس میں یقیناً دیگر اسٹیک ہولڈرز بھی شامل رہے ہیں لیکن پاکستان کا ایک کلیدی کردار رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان اس امن عمل میں سہولت کار رہا ہے اور ابھی بھی یہ کردار ادا کررہا ہے لیکن ضامن نہیں ہے۔
میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ اس امن عمل کا انحصار مختلف افغان دھڑوں پر ہے جنہوں نے آپس میں بات کر کے خود اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے افغانستان کو آگے کیسے لے کر جانا ہے لہٰذا ہمارا ہمیشہ سے مؤقف رہا ہے کہ اس امن عمل کی قیادت افغان کو ہی کرنی چاہیے، ہم اسی کے لیے کوشاں ہیں اور کوشش کرتے رہیں گے۔