• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

لیجنڈری ڈراما ساز انور مقصود نے ڈرامے نہ لکھنے کی وجہ بتادی

شائع July 12, 2021
حالیہ دور میں میرے ڈراموں کے لیے کوئی جگہ نہیں، انور مقصود—فائل فوٹو: فیس بک
حالیہ دور میں میرے ڈراموں کے لیے کوئی جگہ نہیں، انور مقصود—فائل فوٹو: فیس بک

لیجنڈری ڈراما ساز، مزاح نگار اور مصنف 80 سالہ انور مقصود طویل عرصے سے ڈراما نگاری سے دور ہیں، البتہ وہ چند سال سے تھیٹرز لکھ رہے ہیں۔

اس وقت جب پاکستان میں ڈراموں کی ریٹنگ کے نئے ریکارڈز بن رہے ہیں، تب نہ صرف انور مقصود بلکہ ان کی طرح دیگر معروف ڈراما ساز بھی ڈراموں سے دور ہیں اور شائقین چند لکھاریوں کے یکساں موضوعات کے ڈرامے دیکھ کر خوش ہیں۔

انور مقصود جس عہد کے ڈراما ساز ہیں، اس عہد کے لوگ بھی اب ٹی وی پر چلنے والے ڈرامے نہیں دیکھتے مگر نئی نسل حالیہ ڈراموں کے سحر میں گم ہے مگر پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) کے ڈرامے دیکھنے والے لوگ آج بھی انور مقصود جیسے ڈراما نگاروں کے ڈرامے دیکھنے کے لیے ترستے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ہمارے انور مقصود

مگر خود انور مقصود آج کل کے ٹی وی ڈراموں کے لیے خود کو فٹ نہیں سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حالیہ دور میں جس طرح کے ڈرامے لکھے اور چلائے جا رہے ہیں، ایسے ڈراموں کے لیے وہ فٹ نہیں ہیں اور ان کی جگہ نہیں بنتی، جس وجہ سے وہ خود ڈراموں سے دور ہو گئے۔

انور مقصود نے کم عمری میں ہی شوبز کی دنیا میں انٹری دی—فائل فوٹو: فیس بک
انور مقصود نے کم عمری میں ہی شوبز کی دنیا میں انٹری دی—فائل فوٹو: فیس بک

’اردو نیوز‘ سے خصوصی بات کرتے ہوئے انور مقصود نے بتایا کہ وہ خود ڈراما لکھنے کے معاملے میں پیچھے ہٹ گئے ہیں، کیوں کہ آج کل کے دور میں ان کی جگہ بنتی ہی نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کا اپنا خیال ہے کہ آج کل کے پاکستانی ڈراموں کو ڈراما کہا ہی نہیں جا سکتا، آج کے دور میں ڈائجسٹ میں کہانیاں لکھنے والے لکھاری 3 دن میں 20 ڈرامے بھی لکھ سکتے ہیں۔

انور مقصود کے مطابق حالیہ دور میں تخلیقی صلاحیت کو اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ ریٹنگ کے معاملات سب سے زیادہ اہم ہیں اور مارکیٹنگ کے لوگ ہی ڈرامے کی کاسٹ اور کہانی سے متعلق فیصلہ کرتے ہیں، پروڈیوسر اور ہدایت کار کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔

انہوں نے بتایا کہ ایک زمانے میں جب پاکستان میں بھارتی ڈرامے آنے لگے، تب اس وقت کے بڑے ڈراما سازوں کا خیال تھا کہ بھارتی لوگ ہم سے ڈراما سیکھیں گے مگر یہاں الٹا کام ہوا اور ہمارے لکھاریوں نے ان کی نقل کرنا شروع کردی۔

انور مقصود کے خاندان کے تقریباً تمام ہی فرد فنون لطیفہ سے وابستہ رہےہیں—فائل فوٹو: فیس بک
انور مقصود کے خاندان کے تقریباً تمام ہی فرد فنون لطیفہ سے وابستہ رہےہیں—فائل فوٹو: فیس بک

لیجنڈری ڈراما ساز کے مطابق ڈائجسٹ لکھنے والے ڈراما سازوں نے پاکستانی لوگوں کو ساس بہو کے جھگڑوں، دیور اور بھابھی کے عشق سمیت بڑی بہن کے منگیتر یا شوہر سے چھوٹی بہن کے عشق کو دکھانا کیا۔

انور مقصود نے کہا کہ چوں کہ پاکستان کے 70 فیصد لوگ کم پڑھے لکھے یا غیر تعلیم یافتہ ہیں، اس لیے انہیں ایسی ہی مصالحے والی کہانیاں اچھی لگیں اور پھر ایسے ہی ڈرامے بننے لگے، جس سے اب یوں لگتا ہے کہ تمام ٹی وی چینلز پر ایک ہی ڈراما چل رہا ہے۔

مزید پڑھیں: ’الجھے، سلجھے انور’ لکھنا آسان کام نہیں تھا، عمرانہ مقصود

انہوں نے ڈراما سازی میں واپسی کا کوئی عندیہ نہیں دیا اور کہا کہ آج کل کے ریٹنگ کے دور میں ان کی جگہ نہیں بنتی، اس وجہ سے وہ خود ہی ڈراموں سے دور دکھائی دیتے ہیں۔

انور مقصود نے مزاح لکھنے کو مشکل کام قرار دیا اور لکھا کہ مزاح لکھنا آگ کا دریا پار کرنے کے برابر ہے کیوں کہ مزاح ایسے لکھا جاتا ہے کہ کسی کی تضحیک بھی نہ ہو اور تہذیب کے دائرے میں رہ کر لوگوں کو ہنسایا بھی جائے۔

انور مقصود کے مطابق حالیہ پاکستانی ڈراموں کو ڈراما نہیں کہا جا سکتا—فائل فوٹو: فیس بک
انور مقصود کے مطابق حالیہ پاکستانی ڈراموں کو ڈراما نہیں کہا جا سکتا—فائل فوٹو: فیس بک

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024