بنگلہ دیش: فیکٹری میں آگ لگنے سے کم از کم 52 افراد ہلاک
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا کے نواح میں واقع فوڈ پراسیسنگ فیکٹری میں آگ لگنے سے کم از کم 52 افراد ہلاک ہو گئے اور مزید اموات کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق فیکٹری میں آتشزدگی کے نتیجے میں 30 افراد زخمی بھی ہوئے جبکہ متعدد افراد بلند شعلوں کو دیکھتے ہوئے اپنی جان بچانے کے لیے کئی منزلہ عمارت سے کود پڑے۔
مزید پڑھیں: بنگلہ دیش: عمارت میں آتشزدگی سے 19 افراد ہلاک
واقعے کے بعد فیکٹری کے باہر مزدوروں کے سیکڑوں پریشان رشتہ دار اپنے پیاروں کی بارے میں جاننے کے لیے بے چینی سے کھڑے کیونکہ آگ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ شدت اختیار کرتی جا رہی تھی۔
جمعرات کی سہ پہر کو ڈھاکا سے باہر صنعتی قصبے روپ گنج میں ہاشم فوڈ اینڈ بیوریج فیکٹری میں آگ لگی اور 24 گھنٹے بعد بھی اس آگ کو بجھایا نہیں جا سکا۔
عام طور پر عمارت میں ایک ہزار سے زیادہ کارکن موجود ہوتے لیکن جب آگ لگی تو اس وقت اکثر افراد فیکٹری سے جا چکے تھے۔
رات گئے تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد صرف تین تھی لیکن اس تعداد میں ڈرامائی طور پر اس وقت اضافہ ہوا جب فائر فائٹرز تیسری منزل پر پہنچے جہاں انہیں مزید 49 لاشیں ملیں۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش: کیمیائی گودام میں آتشزدگی، 69 افراد ہلاک
فائر سروس کے ترجمان دیباشیش بردھن نے کہا کہ پھنسے ہوئے مزدور چھت پر نہیں جاسکے کیونکہ سیڑھیوں سے باہر جانے والے دروازے پر تالہ لگا ہوا تھا، وہ نیچے نہیں جا سکتے تھے کیونکہ نچلی منزل پہلے ہی آگ کی لپیٹ میں تھی۔
پولیس نے سیکڑوں افراد کو منتشر کیا جن کے رش سے آس پاس کی سڑکیں بند ہو گئی تھیں جبکہ اہلکاروں کی کچھ افراد کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔
پولیس انسپکٹر شیخ کبیر الاسلام نے بتایا کہ واقعے میں 30 سے زائد افراد زخمی ہوئے اور کچھ لوگوں نے بالائی منزل سے چھلانگ لگا دی کیونکہ چھ منزلہ عمارت کو آگ نے مکمل طور پر لپیٹ میں لے لیا تھا۔
ایمرجنسی سروس کو پانچویں اور چھٹی منزل پر لگی ہوئی آگ کو بجھانے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے اور انہوں نے جوس نوڈلز اور ٹافیاں بنانے والی کمپنی کی چھت سے رسیوں کی مدد سے 25 افراد کو بچایا۔
مزید پڑھیں: روہنگیا مہاجر کیمپوں میں آتشزدگی، ہزاروں گھر خاکستر
دیباشیش بردھن نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک بار ہم نے آگ پر قابو پا لیا تو ہم اندر تلاشی لیں گے، ابھی ہم مزید کسی ہلاکت کی تصدیق نہیں کر سکتے۔
ڈھاکا کے فائر چیف ڈینو مونی شرما نے کہا کہ اندر زیادہ تعداد میں موجود آتش گیر کیمیکل اور پلاسٹک کی وجہ سے آگ لگی۔
آگ سے کامیابی سے بچ نکلنے والے فیکٹری کے ایک مزدور محمد سیفل نے بتایا کہ جب آگ بھڑک لگی تو اندر درجنوں لوگ موجود تھے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ تیسری منزل پر دونوں سیڑھیوں کے دروازے بند تھے، دوسرے ساتھی یہ کہہ رہے ہیں کہ اندر 48 افراد موجود تھے لیکن مجھے علم نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: نئی دہلی: ہوٹل میں آتشزدگی سے 17 افراد ہلاک
ایک اور مزدور مامون نے بتایا کہ گراؤنڈ فلور پر آگ لگنے کے بعد وہ اور 13 دیگر مزدور چھت کی طرف بھاگے اور کالے دھویں نے پوری فیکٹری کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور پھر وہ رسیوں کی مدد سے بمشکل نیچے آئے۔
دیگر مزدوروں نے انکشاف کیا کہ حالیہ عرصے میں فیکٹری میں آگ لگنے کے چھوٹے موٹے واقعات رونما ہوتے رہتے تھے اور فیکٹری سے کسی واقعے کی صورت میں باہر نکلنے کے لیے صرف دو راستے سیڑھی کے ذریعے ہی تھے۔
آگ کی شدت میں کمی کے بعد متعدد افراد اپنے پیاروں کے بارے میں جاننے کے لیے بے چین ہیں جو اس فیکٹری میں مزدوری کرتے تھے اور انہی میں 50سالہ خاتون پکھی بیگم بھی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہر مقامی ہسپتال میں جا چکی ہوں لیکن مجھے ابھی تک اپنا بیٹا کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلا، وہ وہاں نہیں ہے اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ بھی آگ کی لپیٹ میں آ کر ہلاک نہ ہو گیا ہو۔
ایک اور شخص نذر الاسلام نے ہم یہاں آئے کیونکہ یہاں کام کرنے والی میری بھانجی کافی دیر سے ہمارے فون کالز کا جواب نہیں دے رہی اور اب فون بج بھی نہیں رہا لہٰذا ہم پریشان ہیں۔
بنگلہ دیش میں صنعتی مقامات، فیکٹریوں اور اپارٹمنٹ کی عمارتوں میں اس طرح آگ لگنے کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جس میں اب تک ہزاروں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
مزید پڑھیں: سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس: کب کیا ہوا؟
2013 میں 9 منزلہ رانا پلازہ گرنے سے 1100 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد عمارتوں کی تعمیر اور حفاظتی معیار کے حوالے سے اصلاحات کا عزم ظاہر کیا گیا تھا لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ حفاظتی معیار پر اب بھی سمجھوتہ کیا جا رہا ہے۔
فروری 2019 میں ڈھاکا کے اپارٹمنٹس میں غیرقانونی طور پر کیمیائی مواد ذخیرہ کیا گیا تھا اور اس کے نتیجے میں لگنے والی آگ سے کم از کم کم از کم 70 افراد کی موت ہو گئی تھی۔