اسلام آباد: جوڑے کو ہراساں کرنے کا معاملہ، ملزمان کا 4 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اور سیشن عدالت نے ایک جوڑے کو ہراساں کرنے کے کیس میں مرکزی ملزم عثمان مرزا سمیت 3 تین ملزمان کا 4 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
پولیس نے مرکزی ملزم عثمان مرزا، حافظ عطا الرحمٰن اور فرحان نامی ملزمان کو جوڈیشل مجسٹریٹ وقار حسین گوندل کی عدالت میں پیش کیا۔
عدالت میں فرحان کے وکیل ملک اخلاق، عثمان مرزا کے وکیل میاں ظفر اقبال، حافظ عطا الرحمٰن کے وکیل سفیان اکرم چیمہ پیش ہوئے جبکہ سرکار کی جانب سے وکیل جاوید عطا اور تفتیشی افسر شفقت عدالت میں پیش ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد: خاتون و مرد پر تشدد، برہنہ کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
وکلا نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ گزشتہ تاریخ پر بھی 7 روز کا ریمانڈ مانگا گیا تھا، ہمیں سوشل میڈیا کو نہیں پولیس کا ریکارڈ دیکھنا ہے، مرکزی ملزم جو کچھ کر رہا ہم اس کی مذمت کرتے ہیں، تمام لوگوں کو ایک ہی سانچے میں نہ رکھا جائے، گزشتہ تاریخ پر 2 روز کا ریمانڈ دیا گیا تھا۔
وکلا کا کہنا تھا کہ عدالت نے کہا تھا کہ فرحان اور حافظ عطا الرحمٰن کے خلاف کیا ثبوت ہے تو مرکزی ملزم سے موبائل اور اسلحہ برآمد ہو چکا ہے، اگر کوئی پیش رفت نہیں ہے تو ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا جائے، اس وقت وہ ویڈیو ہی تمام ریکارڈ ہے۔
وکیل نے کہا کہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے فرحان اور عطا الرحمٰن مرکزی ملزم کو روک رہے ہیں، کسی جگہ دکھا دیں کہ فرحان کے پاس پسٹل ہے، یہ سارا واقعہ کمرے کے اندر ہوا تو کیا دفعہ 354 اے بنتی ہے؟
وکیل کا کہنا تھا کہ انتہائی شرمناک کام کیا گیا ہے لیکن فرحان اور حافظ عط الرحمٰن کا اس میں کوئی کردار نہیں، وہ دونوں پراپرٹی ڈیلر ہیں، جب وقوعہ ہوا اس وقت فرحان کشمیر ہائی وے پر تھا، جہاں سے اس کو بلایا گیا۔
وکیل نے کہا کہ پلازہ میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں وہ چیک کیے جائیں اگر فرحان یا حافظ عطا الرحمن مرکزی ملزم کے ساتھ اکٹھے فلیٹ پر جاتے دکھتے ہیں تو ہمیں سزا دیں۔
مزید پڑھیں: بااثر شخص کا دکانداروں کو برہنہ کرکے تشدد
وکیل میاں ظفر نے کہا کہ ملزمان سے تمام چیزیں برآمد ہوچکی ہیں اب انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا جائے،حافظ عطاالرحمٰن سے کوئی چیز برآمد نہیں ہوئی وہ اس وقت بھی لڑکے اور لڑکی کو بچا رہا تھا۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ آج ہم جس کیس کا ریمانڈ مانگ رہے ہیں وہ دفعہ ہی 354 اے ہے، جس کا مقدمہ بنتا ہی کسی کی عزت اچھالنے پر ہے، ابھی متاثرہ لڑکے اور لڑکی کا بیان بھی قلمبند کرنا ہے۔
ملزمان کے وکلا نے کہا کہ پولیس نے 2 روز میں کیا برآمد کیا، مزید ریمانڈ لے کر یہ لڑکے اور لڑکی کی عزت اچھال رہے ہیں، سرکاری وکیل نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ ریمانڈ دیا جائے تاکہ موبائل اور دیگر ویڈیوز بھی برآمد ہو سکیں۔
ملزمان کے وکیل نے کہا کہ میرا کیس یہ ہے کہ فرحان کشمیر ہائی وے پر تھا جبکہ عطا الرحمٰن سب کو چُھڑا رہا تھا۔
جج نے ملزم کی لوکیشن حاصل کرنے کے بارے میں استفسار کیا تو تفتیشی افسر نے بتایا کہ اس کے لیے اپلائی کیا ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور: پولیس کا شہری پر برہنہ کرکے تشدد، ملوث اہلکار گرفتار
ملزمان کے وکیل نے کہا کہ تفتیشی افسر کو ایک ایک لمحے کا حساب عدالت میں دینا ہے، مرکزی ملزم عثمان ابرار سے جو برآمد کرنا ہے کریں لیکن ساتھ دو ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا جائے۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ اتنے بڑے کیس میں 2 روز کا ریمانڈ بہت کم ہے، وکیل ملزمان کا کہنا تھا کہ ان سے جو برآمد کرنا تھا پولیس نے برآمد کر لیا ہے، ریمانڈ اس لیے لیا جا رہا ہے تاکہ پولیس میڈیا کے ذریعے کارکردگی دکھا سکے۔
جج نے پولیس کو ہدایت کی کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سائبر کرائم سیل کو ویڈیو اپ لوڈ کرنے والے کا سراغ لگانے کا کہا جائے۔
مرکزی ملزم کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل کا 2 کروڑ روپے کا لین دین تھا جس کی وجہ سے مقدمہ درج کروایا گیا۔
بعدازاں عدالت نے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا جسے کچھ دیر بعد سناتے ہوئے ملزمان کا 4 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
جوڑے نے شادی کرلی ہے، پولیس حکام
دوسری جانب ڈان اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امکان موجود ہے گرفتار ملزمان منظم جرائم کرنے والے گینگ کا حصہ ہوں۔
بندوق کے زور پر لڑکا اور لڑکی کو برہنہ کرنے اور ان پر تشدد کرنے کے الزام میں پولیس اب تک 4 ملزمان کو گرفتار کرچکی ہے۔
حکام کا کہنا تھا کہ ملزمان کے موبائل فونز سے ایسی مزید ویڈیوز برآمد ہوئی ہیں اور ان کی بدسلوکی کا نشانہ بننے والے افراد کی شناخت کے لیے ویڈیوز کا جائزہ لیا جارہا ہے۔
مزید پڑھیں:چوری کے الزام میں گرفتار خواتین پر پولیس تشدد کی ویڈیو وائرل
ابتدائی تفتیش اور موبائل فونز سے ملنے والی ویڈیوز سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اس علاقے میں پہلا واقعہ نہیں تھا اور مختلف رہائشی علاقوں میں اس طرح کے درجنوں واقعات ہوئے ہیں۔
ان میں سے چند واقعات پولیس کے علم میں بھی لائے گئے لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی، ملزمان کا طریقہ کار ظاہر کرتا ہے کہ یہ منظم جرم تھا، ملزمان پراپرٹی اور کار ڈیلر ہیں اور انہوں نے علاقے میں فلیٹ خرید رکھا تھا۔
وہ یہ فلیٹ ایک روز یا مختصر سے وقت کے لیے بھی کرایے پر دیتے تھے اور پھر فلیٹ کرایے پر لینے والے جوڑوں کو نشانہ بناتے اور ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے کے ساتھ ان کی ویڈیو بھی بناتے تھے۔
دوسری جانب مرکزی ملزم عثمان ابرار نے ایک ویڈیو پیغام میں دعویٰ کیا کہ وہ 20 روز میں رہا ہوجائے گا اور کہا کہ ویڈیو بنانے کا مقصد اپنے دوستوں کو یہ بتانا ہے کہ مقدمہ درج ہونے کی وجہ سے وہ کچھ روز کے لیے دستیاب نہیں ہوگا۔
اس ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک پولیس افسر نے کہا کہ یہ ظاہر ہورہا ہے کہ ویڈیو گرفتاری کے بعد بنائی گئی، ویڈیو پولیس حراست میں بنائی گئی اور اسے دوسروں کو بھیجا اور سینئر پولیس افسران نے ملزم کو ویڈیو بنانے کی اجازت دینے پر جونیئرز کی سرزنش ہے اور انکوائری کا حکم دیا ہے۔
تاہم انسپکٹر جنرل آف پولیس قاضی جمیل الرحمٰن نے کہا کہ یہ ویڈیو پرانی ہے اور کسی گزشتہ مقدمے کے بارے میں ہے۔
علاوہ ازیں رات گئے ہونے والی ایک پیش رفت میں ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے ایک ویڈیو پیغام میں بتایا کہ مذکورہ جوڑے نے شادی کرلی ہے اور پولیس حکام نے جوڑے کو تحفظ کی یقین دہانی کروائی جس پر جوڑے نے کیس میں مدعی بننے پر رضا مندی کا اظہار کیا ہے۔