کراچی: مفتی تقی عثمانی پر مبینہ قاتلانہ حملہ، مشتبہ شخص زیر حراست
کراچی کے علاقے کورنگی میں قائم دارالعلوم کی مسجد میں ملک کے ممتاز عالم دین مفتی تقی عثمانی سے علیحدگی میں ملاقات کی خواہش رکھنے والے شخص کے پاس سے چاقو بر آمد ہونے پر اسے حراست میں لے لیا گیا۔
سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) کورنگی شاہ جہاں خان کا کہنا تھا کہ دارالعلوم کی مسجد سے مشتبہ شخص کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
ایس ایس پی نے بتایا کہ مشتبہ شخص نے فجر کی نماز کے بعد مفتی تقی عثمانی سے علیحدگی میں ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا جس پر ان کے محافظ نے اس شخص کی تلاشی لی تو جیب سے چاقو برآمد ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جیب سے چاقو برآمد ہونے پر محافظوں نے مشتبہ شخص کو پکڑ کر اسے پولیس کے حوالے کردیا‘۔
مزید پڑھیں: کراچی میں مفتی تقی عثمانی پر قاتلانہ حملہ، 2محافظ جاں بحق
انہوں نے کہا کہ ’زیر حراست مشتبہ شخص نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ گھریلو مسئلے سے متعلق بات کرنے پر مفتی تقی عثمانی سے ملاقات کرنے آیا تھا'۔
انہوں نے بتایا کہ ’زیر حراست مشتبہ شخص سے پوچھ گچھ کا سلسلہ جاری ہے‘۔
دوسری جانب دارالعلوم کراچی کی انتظامیہ کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ مفتیٰ تقی عثمانی خیریت سے ہیں۔
واقعے کے بعد مفتی تقی عثمانی کے سامنے آنے والے آڈیو ریکارڈنگ بیان میں انہوں نے بتایا کہ ایک شخص نے مجھ سے علیحدگی میں بات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، میں ان سے بات کرنے اٹھا ہی تھا کہ انہوں نے جیب سے چاقو نکالا، جس پر فوری طور پر ساتھیوں نے اسے پکڑ لیا۔
خیال رہے کہ مشتبہ فرد کے یہاں آنے اور مقاصد کے بارے میں متعلقہ ادارے تفتیش کر رہے ہیں جس کے بعد صورتحال واضح ہوسکے گی۔
یہ بھی پڑھیں: مفتی تقی عثمانی سب سے بااثر مسلم شخصیت، عمران خان ’مین آف دی ایئر‘ قرار
دوسری جانب پولیس کی زیر حراست ملزم عاصم نے دوران تفتیش بتایا کہ میری دو بیویاں ہیں، حالات زندگی سے پریشان ہوں اور انتہائی مشکل سے گزارا ہورہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حالات سے تنگ آکر خودکشی کے بارے میں بھی سوچا تھا، مفتی تقی عثمانی سے مسائل کے حل کے سلسلے میں ملاقات کے لیے آیا تھا۔
پولیس عہدیدار نے بتایا کہ ملزم عاصم گلستان جوہر کا رہائشی ہے جس کے قبضے سے چاقو اور گفٹ پیک برآمد ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزم کے بیانات کی تصدیق کی جارہی ہے۔
وزیر داخلہ کا مفتی تقی عثمانی کو ٹیلی فون
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے مفتی تقی عثمانی کو ٹیلی فون کرکے مبینہ چاقو سے حملے کے متعلق پوچھا اور مفتی تقی عثمانی سے ان کی خیریت دریافت کی۔
انہوں نے مبینہ حملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کی زندگی کے لیے دعا کی۔
گورنر سندھ کا واقعے پر اظہار تشویش
ادھر گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے مفتی تقی عثمانی کے زیر انتظام دارالعلوم کورنگی سے گرفتار مشتبہ شخص کے قبضہ سے چاقو برآمد ہونے پر تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے ایڈیشنل آئی جی کراچی کو معاملے کی مکمل تحقیقات کر کے جامع رپورٹ پیش کرنے اور علمائے کرام کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی۔
واضح رہے کہ 22 مارچ 2019 کو کراچی کے علاقے نیپا چورنگی پر بھی مفتی تقی عثمان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا جس میں ان کا محافظ پولیس اہلکار شہید ہوگیا تھا۔
دو موٹر سائیکلوں پر سوار 4 ملزمان نے گلشن اقبال نیپا چورنگی کے قریب دو کاروں پر اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 2 محافظ جاں بحق ہوگئے جبکہ مفتی تقی عثمانی محفوظ رہے۔
واقعے کے بعد مفتی تقی عثمانی نے صحافیوں سے مختصر گفتگو میں بتایا تھا کہ موٹر سائیکل سوار ملزمان کی جانب سے فائرنگ کے وقت گاڑی میں ان کی اہلیہ اور 2 پوتے بھی موجود تھے تاہم وہ فائرنگ سے محفوظ رہے۔
انہوں نے حملے کی مختصر تفصیلات بتائیں کہ ایسا لگا کہ ہماری گاڑی پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی گئی ہو۔