دلاور فگار: ایک ظرافتی عہد
حاکمِ رشوت ستاں فکرِ گرفتاری نہ کر
کر رہائی کی کوئی آسان صورت، چھوٹ جا
میں بتاؤں تجھ کو تدبیرِ رہائی، مجھ سے پوچھ
لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا
شہرِ خموشاں کی ایک قبر سے گھاس پھوس اور جھاڑ جھنکار کو ہٹایا اور احساسات سے خالی سنگ مرمر کے کتبے کو صاف کیا تو اس مشہور قطعے کے خالق کی قبر کے کتبے پر جلی حرفوں میں ’برِصغیر کے نامور شاعر شہنشاہ ظرافت، اکبر ثانی حضرت دلاور فگار‘ کے ساتھ یہ شعر لکھا تھا کہ
خبر یہ لے کے بدایوں سے آیا ہے راوی
کہ قبر میں بصد آرام سورہا ہوں میں
خبر نہیں کہ مری موت کب ہوئی لیکن
سنا تو میں نے بھی ہے، فوت ہوگیا ہوں میں
دلاور فگار کی قبر کے ساتھ ہی زوجہ دلاور فگار سیدہ خاتون کی قبر بھی ہے، جن کی پیدائش 1943ء اور وفات یکم جنوری 2012ء جبکہ دلاور فگار کی قبر پر پیدائش جولائی 1928ء اور وفات 21 جنوری 1998ء درج ہے۔ اس دوران ساتھ کھڑے گورکن محمد اسلم نے قبر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ 'صاحب انسان چلا جاتا ہے اور اس کی کہانی رہ جاتی ہے۔ یہی زندگی ہے، بس کچھ بڑے لوگ ہوتے ہیں، زندگی کی طرح موت کے بعد بھی ان کی شہرت ان کے کام کی وجہ سے نمایاں رہتی ہے'۔
کراچی کے علاقے پاپوش نگر کے اس قبرستان میں بھی ویسے تو ہر قبر کی اپنی الگ کہانی ہے لیکن یہاں مدفون کئی صاحبانِ بصیرت ایسے بھی ہیں، جن کی کہانی سے ایک بڑا جہاں دلچسپی رکھتا ہے۔ ان میں ابن انشا، ابن صفی، سلیم احمد، ملا واحدی، ابو الفضل صدیقی، شفیع عقیل اور محسن بھوپالی سمیت بہت سے ادیب و شاعر شامل ہیں۔
دلاور فگار ’شامت اعمال‘ (یہ جون 1964ء میں انڈیا سے شائع ہوئی، اترپردیش کی حکومت نے ان کے اس مجموعے کو سرکاری انعام کا مستحق بھی قرار دیا) کے انتساب میں لکھتے ہیں کہ ’ہر اس عقلمند کے نام جو اس کتاب کو ’شامتِ اعمال‘ سمجھے‘۔ پھر اس میں وہ اپنا تعارف کچھ یوں کرواتے ہیں کہ:
ہے دلاور حسین میرا نام
اور تخلص فگار بہرکلام
ہے بدایوں مرا عزیز وطن
یہ ہمیشہ سے ہے میرا مسکن
سن بیالیس میں بنا شاعر
جذبہ شوق ہوگیا ظاہر
اپنے استادوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں:
جام و سبطین و جامی و جوہر
میرے استاد ہیں یہ اہل نظر
یعنی ظفر یار حسین، جام نورائی بدایونی، سبطین احمد، سبطین بدایونی، الحاج مولانا عبد الحامد، جامی بدایونی، ریٹائرڈ جج آفتاب احمد، لبھورام جوش ملسیانی آپ کے استاد رہے ہیں۔
اہم شاعروں کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں:
جگر و میر فانی اور اقبال
میں سمجھتا ہوں ان کو اہلِ کمال
پھر آخر میں کہتے ہیں:
عمر اپنی جو صاف گزری ہے
قاعدے کے خلاف گزری ہے
انہوں نے ہندوستان کے سب سے بڑے صوبے اتر پردیش (یو پی) کے مشہور و معروف مردم خیز قصبے بدایوں کے ’حمیدی صدیقی‘ خاندان میں ماسٹر شاکر حسین کے گھر آنکھ کھولی۔ والد مقامی اسکول میں استاد تھے۔ آپ نے اپنا پہلا شعر 14 برس کی عمر میں کہا تھا۔ بدایوں میں اعلیٰ تعلیم کا کوئی مرکز نہیں تھا، اس لیے وہاں سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی، بعدازاں 1953ء میں بی اے کیا اور پھر آگرہ یونیورسٹی سے فرسٹ ڈویژن میں اردو اور معاشیات میں ایم اے کیا۔ صرف یہی نہیں آپ انگریزی میں بھی ایم اے کرنا چاہتے تھے لیکن وہ معاش کی جدوجہد کی وجہ سے مکمل نہ ہوسکا۔
ہندوستان میں ہی والد صاحب کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے، پھر جب 1968ء میں پاکستان آئے تو یہاں بھی ان کی شاعری کی بڑی پذیرائی ہوئی۔ یہاں کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ اپنی نظم ’شاعر اعظم‘ میں فیض صاحب کا عقیدت سے ذکر کرتے ہیں۔ وہ عبداللہ ہارون کالج لیاری میں بحیثیت لیکچرار کچھ عرصے تک اردو پڑھاتے رہے۔ فیض صاحب اس کالج کے پرنسپل تھے۔ درس و تدریس کے علاوہ وہ کچھ عرصہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر، ٹاؤن پلاننگ کے طور پر (کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی) کے ڈی اے سے بھی وابستہ رہے۔
دلاور فگار من موجی، غالب اور جون ایلیا کی طرح مست اور شعر و شاعری کے نشے میں ڈوبے رہنے والے ایسے لوگوں میں سے تھے جنہوں نے سماجی اور معاشی زندگی کو بہتر بنانے اور مال و زر بنانے کی کبھی کوشش نہیں کی، وہ کچھ اور طرح کے ہی تھے۔
انہوں نے ابتدا سنجیدہ غزل سے کی، اس ضمن میں وہ خود بتاتے ہیں کہ ’لوگ کہتے ہیں کہ میں طنز و مزاح نگار ہوں۔ گویا کہ طنز نگاری، شاعری یا کم از کم سنجیدہ شاعری سے الگ کوئی فن ہے۔ جہاں تک میری طنز نگاری کا تعلق ہے، یہ میری سنجیدہ شاعری ہی کی بنیاد پر مبنی ہے، ظاہر ہے کہ بالاخانے کو گراؤنڈ فلور سے الگ نہیں کیا جاسکتا‘۔
آپ کی مزاحیہ شاعری کا تعارف یا آغاز بھی اتفاقی طور پر ہوا۔ وہ اپنے دوستوں کو مزاحیہ نظمیں لکھ کر دیتے تھے۔ ایک مشاعرے میں جس میں معروف فلم اسٹار دلیپ کمار مرحوم بھی موجود تھے اور اس کی میزبانی شکیل بدایونی کررہے تھے گلفام بدایونی نے دلاور فگار کی لکھی نظم پڑھی، لیکن شکیل بدایونی نے اسی مشاعرے میں گلفام سے اگلوایا کہ یہ اشعار انہیں دلاور فگار نے لکھ کردیے تھے۔ یوں شکیل بدایونی اور دوستوں کے کہنے پر دلاور فگار مشاعروں میں طنزیہ کلام خود پڑھنے لگے اور بے حد مقبول ہوئے۔
بدایوں میں ہونے والے مشاعروں میں وہ ’شباب بدایوں‘ کی حیثیت سے باضابطہ شرکت کرتے رہے۔ ایک جگہ کسی نے لکھا ہے کہ، ان دنوں وہ لہک لہک کر اپنی غزل سنایا کرتے۔ ان کی آواز میں ایک دلآویز نقاہت ہوتی اور ایسا لگتا کہ اب سانس ٹوٹی۔ تاہم اپنی کتاب ’حادثے‘ کی اشاعت کے بعد وہ ’شباب‘ سے ’فگار‘ ہوئے، کہتے ہیں کہ اس کے پیچھے بھی شکیل بدایونی تھے۔ آپ کے مزاحیہ شعری مجموعوں میں انگلیاں فگار اپنی، ستم ظریفیاں، آداب عرض، شامت اعمال، مطلع عرض ہے، سنچری، خدا جھوٹ نہ بلوائے، چراغِ خنداں اور کہا سنا معاف شامل ہیں۔
پروفیسر ولی بخش قادری بچپن کے دوست بھی تھے اور ہم جماعت بھی۔ وہ دلاور فگار کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’وہ منکسر مزاج اور دوست نواز واقع ہوئے، انہوں نے تلخی حیات کے کڑوے گھونٹ بھی پیے اور اپنی دنیا آپ پیدا کی۔ ان کی شاعری میں زندگی کا پرتو صاف جھلکتا ہے، طبیعت تصنع اور تکلفات سے دُور تھی۔ فگار اچھے خاصے چوڑے چکلے آدمی نظر آتے ہیں مگر اکڑفوں سے دُور کچھ ڈھیلے ڈھالے، سڑک پر سرجھکائے دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے آپ میں مگن چلا کرتے ہیں۔ گفتگو کے دوران عموماً آنکھیں نیچی رہتی ہیں۔ نظمیں تحت اللفظ پڑھتے ہیں۔ کچھ ایسا لگتا ہے جیسے زور لگا کر آواز نکال رہے ہوں۔ بزم بے تکلف میں اب بھی ترنم سے غزل سنا دیتے ہیں جس میں لڑکپن کے آہنگ کی جھنکار سنائی دے جاتی ہے۔ ان کے مزاج میں آتش گیر مادے کی کمی نہیں ہے وہ خوب جھلاتے ہیں۔ مگر فی نفسہ نرم دل اور مروت کے آدمی ہیں‘۔
انسان کو سب سے زیادہ اس کے گھر والے اور قریبی جانتے ہیں، اسی اہمیت کے سبب میں نے ان ہی کے حمیدی خانوادے سے تعلق رکھنے والی اور رشتے میں فگار کی بھتیجی، اپوا کالج کراچی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر فوزیہ حمیدی سے رابطہ کیا۔ جب ان سے بات کی تو لگا کہ وہ دلاور فگار سے خصوصی انسیت اور محبت رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’دلاور فگار میرے پھوپھا تھے، محشر بدایونی، منور بدایونی یہ سب کزن تھے۔ دلاور انکل نہایت پُرخلوص اور درد رکھنے والے انسان تھے۔ ان کی شاعری کو ان کے ہم عصروں نے بھی احترام کی نظر سے دیکھا ہے۔ ان کی نظمیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان میں آپ نے سماجی ناہمواریوں اور معاشرتی برائیوں کو اپنے مخصوص طنز و مزاح کے انداز میں بیان کیا جس میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔ انہیں لفظوں کی تکرار اور انہیں الٹ پھیر کر بیان کرنے کا فن آتا تھا، وہ عام واقعات میں بھی طنز و مزاح کے پہلو تلاش کرلیتے تھے۔
’پھوپھا کا شعر پڑھنے کا انداز خاصا منفرد تھا، لحن اور تحت اللفظ و ترنم کے ملے جلے آھنگ میں اپنے پورے وجود کے ساتھ اشعار پڑھتے تو ایسا لگتا تھا کہ سامعین پوری طرح ان ہی کی طرف متوجہ رہتے تھے۔ وہ لطف بھی لیتے تھے اور بھرپور داد بھی دیتے تھے۔ شمائل حمیدی ان کے سسر تھے، فگار ان کی تربیت میں رہے، میری پھوپی سیدہ خاتون ان کی اہلیہ تھیں، وہ بڑی فرمانبردار اور صابر تھیں اور انہوں نے پھوپھا کا بہت ساتھ دیا۔‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا ان کے ہاں آنا جانا بہت تھا، وہ بس اپنی کتابوں میں غرق رہتے تھے۔ کبھی کمرے سے باہر آجاتے تو اکثر اپنی کوئی بھی غزل چھیڑ دیتے تھے، قطعہ سناتے اور کہتے یہ سنو اور بتاؤ کیسا ہے، کس طرح کا ہے؟
’بیسویں صدی کے مشہور ماہنامہ میں ’شاعر اعظم‘ چھپی تو پورے ہندوستان میں دھوم مچ گئی۔ اس کے بعد ہی ان کی شہرت کا معیار بہت بڑھا اور پھر ان کی جو کمال کی شاعری رہی ہے اس نے بدایوں سے کراچی تک شہرت پائی۔ رشوت، انٹرویو، کیسا غنڈہ تھا، شاعر کی پریشانی، قاتل، شاعر مرگیا، اسیر بقلم خود، دعائے نجات، کرکٹ اور مشاہدہ، کراچی کا قبرستان، ایک شاہین، گدھے کا قتل، یہ ہم بچپن میں پڑھتے تھے اور پوچھتے تھے کہ دلاور انکل ہمیں یہ بتائیں یہ کیا ہے۔ یہ سب نظمیں آج بھی ویسی ہی زندہ ہیں۔‘
ایک اور سوال کے جواب میں فوزیہ حمیدی کا کہنا تھا کہ ’وہ جتنے بڑے شاعر تھے اس طرح ان کی قدر نہیں ہوئی، اور ان کی وہ پذیرائی نہیں ہوئی جو ہونی چاہیے تھی۔ وہ میرے پاپا اخلاق حسن حمیدی سے بہت محبت کرتے تھے۔ ان کے پاس بہت آتے تھے اور اپنے دل کا سارا احوال بیان کرتے تھے۔ آخری وقت تک ان کو ایک ملال تھا، ایک کرب تھا اور ان کے دل میں یہ بات سمائی رہی کہ جو پذیرائی اور مقام ایک ادیب یا شاعر کو ملنا چاہیے تھا، وہ نہیں ملا۔ وہ اس بات کا بارہا اظہار کرتے تھے۔ انہیں روپے پیسوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ہم اکثر ان سے کہتے تھے آپ تو اتنے بڑے شاعر ہیں، آپ تو کچھ بھی کہہ کر کروا سکتے ہیں لیکن وہ کہتے تھے نہیں، غلط کام نہیں کروں گا۔
’وہ اتنے بڑے شاعر ہونے کے باوجود کسی کے آگے نہیں جھکتے تھے، بس کہتے تھے کہ میری شاعری جو ہے، وہ ہے۔ مشتاق احمد یوسفی نے، جمیل الدین عالی نے، تابش دہلوی نے ان کے بارے میں لکھا ہے۔ چھوٹے سے گھر میں بڑے بڑے لوگ آتے تھے، فرمان فتح پوری آتے تھے، ضمیر جعفری آتے تھے۔ میں یونیورسٹی میں تھی، جب لوگوں کو ان سے میرے رشتے کا معلوم ہوتا تھا تو لوگ کھڑے ہوجاتے تھے۔ محسن بھوپالی، پروفیسر سحر انصاری، حنیف فوق، بڑے بڑے پروفیسر اسکالر ان کا نام سن کر کھڑے ہوجاتے تھے، یہ ان کا مقام تھا۔ اب وہ چھوٹے سے پاپوش نگر کے قبرستان میں سو رہے ہیں۔‘
ممتاز نقاد، جدید اردو غزل کے اہم شاعر اور ادیب سحر انصاری سے دلاور فگار بہت قریب رہے اور ایک دوسرے کے گھر آنا جانا بھی رہتا تھا۔ سحر انصاری نے دلاور فگار کی شخصیت اور شاعری پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’صرف مزاح میں ہی نہیں سنجیدہ شاعری میں بھی ان کا بہت اچھا کلام تھا جبکہ نعتیہ شاعری بھی انہوں نے بہت اچھی لکھی ہے۔ وہ بہت ذہین اور زود گو آدمی تھے، ذرا سی دیر میں درجنوں شعر کہہ دیتے تھے۔ ان کا وہی انداز تھا جو اکبر الہٰ آبادی کا تھا، وہ نئے نئے انداز سے مزاح کو برتّے تھے، مثلاً انہوں نے سہرے اور مرثیے کے مصرعوں کو ملا کر لکھا کہ
چنو میاں کی موت ہوئی ہے بہار میں
مدت سے اقرباء تھے، اسی انتظار میں
’جس زمانے میں جمعے کی چھٹی ہوا کرتی تھی، تو وہ بغل میں 6، 7 اخبار دبائے ہوئے آتے تھے۔ اس وقت دروازہ میرا کھلا ہوا ہی ہوتا تھا کیونکہ احباب آتے تھے، وہ دُور سے ہی کہتے ہوئے آتے تھے یہ شخص مروا دے گا، ہمیں پڑھوا پڑھوا کر مروا دے گا، ہم کہتے کون؟ بھئی یہی ذوالفقار علی بھٹو یہ کوئی نہ کوئی بیان دے دیتا ہے اور سارے اخبار پڑھنے پڑتے ہیں۔
’اسی طرح اردو محل ایک ادارہ تھا، اس نے ان کی کتاب شائع کرنے کے لیے کہا کہ آپ اپنا مسودہ مجھے دے دیجیے، اب ایک دن وہ اس کی دکان کے سامنے سے گزر رہے تھے، تو سلام کرنے کے بعد ناشر نے انہیں زور سے پکار کر کہا فگار صاحب آئیے آئیے، تو وہ آکر کہنے لگے صاحب، کیا آئیے آئیے، اور کوئی کام نہیں ہے مجھے دنیا میں، یہ کہہ کر چلتے بنے، اب دیکھیے وہ ناشر سے ایسا کہہ رہے ہیں۔ ایک دن پھر ان کا گزر ہوا تو وہ دکان میں سلام کرکے گھس گئے اور اسٹول پر بیٹھ گئے، تو ناشر نے کہا دلاور فگار صاحب معاف کیجیے گا یہ نہ میرا ڈرائنگ روم ہے، نہ میرا گھر ہے، یہ جو ہے میرا تجارتی ادارہ ہے، لہٰذا آپ اگر میرا وقت خراب نہ کریں تو بہتر ہوگا‘، سحر انصاری نے ہنستے ہوئے کہا ’تو اس طرح کے وہ آدمی تھے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’پھر ریڈیو پاکستان نے یہ کہا کہ اپنے شعبے کے معروف لوگ جو 60، 70 سال کے ہوچکے ہیں ان کے تفصیلی انٹرویو کیے جائیں، تو مزاح میں دلاور فگار نے مسٹر دہلوی کو انٹرویو دیا۔ اس دور میں فگار کے بارے میں مشہور کر رکھا تھا کہ یہ انڈین ایجنٹ ہیں۔ ان کے خلاف دیواروں پر لوگ چاکنگ وغیرہ کررہے تھے، تو ایک دن وہ میرے پاس آئے، کہا صاحب مسٹر دہلوی کیا چاہتے ہیں مجھ سے؟ کیا اگلوانا چاہتے ہیں مجھ سے، میں تو کچھ کہہ کر نہیں دوں گا انہیں۔ تو یہ تھے دلاور فگار‘۔
دلاور فگار نے اپنی ظریفانہ شاعری کے لیے اکبر الہٰ آبادی کو اپنا آئیڈیل اور ماڈل بنایا اور اس کا اظہار وہ ہر طریقے سے کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ انہیں شہنشاہ ظرافت اور اکبر الہٰ آبادی ثانی بھی کہا جاتا تھا۔
میں نے اردو اور پنجابی کے ممتاز اور مشہور مزاحیہ شاعر پروفیسر انور مسعود سے رابطہ کیا اور کہا، انہیں اکبر ثانی بھی کہا جاتا ہے اور قبر کے کتبے پر بھی لکھا ہے تو آپ کا کہنا تھا کہ ’ہر ایک کو نام دینا ایک رسم بن گئی ہے کہ یہ اکبر الہٰ آبادی کے بعد بڑا شاعر ہے، اکبر تو مزاح کے ماونٹین ہیں، وہ مزاح کے ہمالیہ ہیں، ہمیں مقابلے نہیں کرنے چاہئیں۔ اکبر اپنی طرز کے شاعر تھے اور دلاور اپنی طرز کے۔ ان کا موضوع الگ اور ان کا موضوع الگ ہے۔ اکبر کا موضوع مغرب کی تہذیب پر طنز تھا۔ وہی کام جو سنجیدگی سے اقبال نے کیا وہ مزاح میں اکبر الہٰ آبادی نے کیا‘۔
ایک سوال کے جواب میں انور مسعود نے اپنے مخصوص لب و لہجے میں کہا کہ ’پاکستان کے بڑے بڑے شعرا جو اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں، اس فہرست میں دلاور فگار کانام آتا ہے۔ وہ بہت ہی بڑے قادر الکلام شاعر تھے، ان کا نام زندہ رہے گا۔ ان کے بعض مصرعے ایسے ہیں جو لوگوں کو آج تک ازبر ہیں مثلاً یہ مصرع:
لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا
’اس طرح کے بہت سے مصرعے ہیں ان کے، پھر ان کی خاص بات یہ ہے کہ وہ مختلف چیزوں کو آپس میں ملا دیتے تھے، سہرے کو ملا دیتے ہیں مرثیے سے، یہ ان کا خاص اسلوب اور مزاح آفرینی تھی۔ میری بڑی خوش نصیبی ہے کہ میں نے ان کے ساتھ بہت سے مشاعرے پڑھے۔ وہ کچھ الگ تھے، وہ پاپولر شاعر تھے۔ مزاحیہ شعرا کا ذکر کرتے ہوئے ان کی شخصیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، وہ بڑی اہمیت کی حامل شخصیت تھے۔‘
دلاور فگار کا ہندوستان میں اکثر مشاعروں میں جانا ہوتا تھا اس حوالے سے بھارت کے ممتاز ادیب اور صحافی ندیم صدیقی نے بتایا کہ ’یاد آتا ہے کہ (1982ء کے بعد) کانپور میں ایک مشاعرہ تھا جس میں دلاور فگار بھی تھے۔ اگر حافظہ خطا نہیں کرتا تو اس مشاعرے کی نظامت کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کر رہے تھے۔ ممبئی سے یہ خاکسار بھی مدعو تھا اور اسی مشاعرے میں فگار صاحب کو پہلی بار دیکھا اور سنا تھا۔ ان کے حافظے کا جلوہ آج بھی آنکھوں میں ہے کہ وہ اپنی یادداشت سے خاصی طویل نگارشات سنا رہے تھے۔ فگار اپنے رنگ اور طرز کے واقعتاً منفرد شاعر تھے۔ مجھے نہیں پتا کہ وہ کبھی ممبئی میں رہے ہوں، مگر ممبئی کے چھوٹے چھوٹے مکان اور بڑی فیملی جیسے موضوع کو انہوں نے کس سلیقے سے اپنے طنز میں ڈھالا ہے کہ:
ایک شوہر ایک بیگم ایک بھاوج ایک نند
بے تکلف ایک ہی کھولی میں ہوجاتے ہیں بند
انہی فگار کے ہم وطن شاعر ارتضیٰ نشاط نے اسی موضوع کو یوں کہا ہے:
کیا رات کوئی کاٹ سکے رات کی طرح
گھر میں بھرے ہیں لوگ حوالات کی طرح
جیسا کہ ذکر ہوا کہ فگار ہندوستان میں بھی بہت مقبول تھے اور تعلق بھی وہیں سے تھا تو 1989ء میں ہندوستان میں ایک مشاعرے کے دوران مہندر سنگھ بیدی نے کہا کہ اکبر الہٰ آبادی کے بعد دو شاعر ہند و پاک میں آئے، جنہوں نے ان کا نام زندہ رکھا، ایک سید محمد جعفری اور دوسرے دلاور فگار ہیں اور اس قدر عظمت ان کی ہمارے دل میں ہے کہ ہندوستان والوں نے اگلے سال جشن دلاور منانے کا علان کیا ہے۔ جس پر دلاور فگار نے کہا کہ بڑی محبت ہے میں کس قابل ہوں۔ اس مشاعرے میں فگار نے کلام کا آغاز اس شعر سے کیا اور خوب داد وصول کی
تہذیب و فن کو رنگ مغل اس نے دے دیا
اردو کو ایک تاج محل اس نے دے دیا
دلاور فگار کے اکلوتے شاگرد خالد عرفان آج کل نیویارک میں مقیم ہیں۔ اس مضمون کے لیے ان سے بھی رابطہ ہوا۔ آپ کی فگار صاحب سے بہت ملاقاتیں رہتی تھیں اور دلاور صاحب کے معاملے میں بہت حساس بھی ہیں۔ آپ اپنے محسوسات اور تعلق کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’دلاور فگار ایک ظرافتی عہد کا نام ہے۔ ایک ایسا عہد جس نے مزاحیہ شاعری کو ابتذال سے نکال کر معیاری ظرافت نگاری اور شائستگی سے روشناس کروایا۔ اکبر الہٰ آبادی کے بعد پوری صدی کے مزاحیہ شاعروں اور دلاور فگار میں یہ واضح فرق نظر آتا ہے کہ انہوں نے حسن تخیل کے ساتھ شاعرانہ نزاکت اور لطافت کو ایک انوکھا پیرایہ اظہار عطا کیا ہے۔
’حالاتِ حاضرہ کے جن موضوعات، خبروں اور واقعات پر انہوں نے شاعری کی اور ان کے ساتھ انصاف کیا، وہ دلاور فگار کا ہی خاصہ ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری سے اپنے قارئین کو نہ صرف چونکایا بلکہ طنز و مزاح کی ایک نئی جہت سے بھی متعارف کروایا۔ مصرعے کی چابک دستی، برجستگی اور مضامین میں تنوع دلاور فگار کی شناخت ہے۔ شاعر اعظم، عشق کا پرچہ، کراچی کا قبرستان، کرکٹ اور مشاعرہ، ان کی بہترین نظمیں ہیں جن کی مثال پوری ظرافتی شاعری میں نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایسے معرکتہ الآراء مصرعے کہے ہیں جو پوری صدی کی ظرافتی شاعری پر بھاری ہیں، جیسے:
لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا
آئم دی ہیڈ آف دی اردو ڈپارٹمنٹ
زبانِ مادری کچھ بھی نہیں، گونگی ہے ماں میری
’مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے حضرت دلاور فگار سے بہت کچھ سیکھا اور سمجھا، جو آج بھی میرے کام آرہا ہے۔ پاپوش نگر کی گلیوں اور سڑکوں پر ان کے نقش قدم کے ساتھ ساتھ میرے قدموں کے نشان بھی مل جائیں گے۔ میں نے ان کے ساتھ بہت سے ملکوں اور شہروں کا سفر کیا ہے اور یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ وہ ایک فقیر منش، غیر دنیا دار انسان اور ذاتی مفادات سے بالا سوچ رکھنے والے شاعر تھے۔ انہوں نے سنجیدہ شاعری بھی کی، جس میں اسلام اور پاکستانی شناخت کو ملحوظ رکھا۔ ایسے شاعر بار بار پیدا نہیں ہوتے۔‘
میں نے سحر انصاری سے ہونے والی گفتگو میں انڈین ایجنٹ والی بات کا پس منظر خالد عرفان سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’دراصل وہ بے انتہا حساس ہوگئے تھے۔ جو بھی اجنبی ان کے قریب آتا، وہ کہتے یہ میری آواز کی ریکارڈنگ کررہا ہے، یہ شخص سرکاری نمائندہ ہے اور مجھے انڈین ایجنٹ قرار دینا چاہتا ہے۔ وہ اس زمانے میں نئے نئے ہندوستان سے آئے تھے اور یہ بات ان کے ذہن میں بیٹھ گئی تھی کہ پوری دنیا مجھے انڈین ایجنٹ سمجھتی ہے۔ جب کہ اس میں حقیقت کوئی نہیں تھی۔
’ایک بار قصری کانپوری (مطلوب حسین) ان کے گھر آئے اور کہا بہت لذیز پان لایا ہوں آپ کے لیے، آپ نے پان نہیں لیا اور یہ کہہ کر بھاگ کر گھر میں داخل ہوگئے کہ زہر دینے آیا ہے اور پھر بعد میں راغب مراد آبادی کو فون کردیا کے یہ زہر دینے آیا تھا۔ اس زمانے میں ہر 3، 4 گھر میں ایک فون ہوا کرتا تھا اور آپ کے گھر نہیں تھا، لہٰذا پی سی او سے فون کیا کرتے تھے اور بہت کیا کرتے تھے، بلکہ دکان کھلنے سے پہلے دکان کے باہر کھڑے رہتے تھے۔ مقبول بہت تھے گلی محلے میں دیکھ کر بچے آوازیں لگاتے تھے کہ ’میں اپنا ووٹ کس کو دوں‘۔ 1970ء کے الیکشن کے دنوں میں دلاور فگار کی اس نظم نے دھوم مچادی تھی۔ ایک جج صاحب ان کے محلے میں رہتے تھے وہ گھر آئے اور کہا کہ آپ کے قریب رہتا ہوں، دیکھنے آیا ہوں، آپ نے کہا دیکھ لیا؟ اب جاؤ۔ ٹی وی اسٹیشن پروگرام کے لیے گئے تو کرسی نہیں رکھی تھی، اس لیے ریکارڈ کروائے بغیر واپس آگئے۔ بس ایسے ہی تھے ہمارے فگار صاحب۔‘
دلاور فگار اپنی زندگی کے آخری خط میں، جو انہوں نے ضیا الحق قاسمی کو اپنی وفات سے دو روز قبل (19 جنوری 1998ء)کو لکھا، اس میں فرماتے ہیں کہ ’بھائی! ہماری بزم طنز و مزاح تو سونی ہوگئی، آپ نے بہت طنزیہ مزاحیہ مشاعرے کروائے، پھر بھی خالد عرفان پہلی دنیا میں چلے گئے، آپ تیسری دنیا میں ہیں اور ہم دوسری دنیا میں جانے کے لیے رہ گئے ہیں۔ طنزیہ، مزاحیہ ادب کا قافلہ منتشر ہوگیا۔ خدا اس قافلے کے بابائے ظرافت محترم سید ضمیر جعفری کو سلامت رکھے۔ ایک دلچسپ بات سن لو! ایک صاحب میرے متروکہ وطن بدایوں گئے تھے، وہاں سے خبر لائے ہیں کہ دلاور فگار کا انتقال ہوگیا ہے، مگر ان صاحب نے سچ بات اور تازہ قطعات لوگوں کو سناکر مایوس کردیا۔
خبر نہیں کہ مری موت کب ہوئی لیکن
سنا تو میں نے بھی ہے، فوت ہوگیا ہوں میں
’امریکا جانے کو بہت جی چاہتا ہے، مگر صحت اجازت دے تو جاؤں۔ فون آئے تو خالد عرفان کو سلام ضرور کہنا۔ میں بھی اس کو خط لکھوں گا، خالد عرفان کو نیو یارک میں جشن مبارک ہو۔ اسے کہنا دیکھو، ہمارا عرس بھی شان سے منانا۔‘
دلاور فگار کمال کے شاعر تھے۔ وہ روز مرہ ہونے والے واقعات کو اتنے خوب صورت اور دلچسپ بنا کر پیش کرتے تھے کہ آپ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجائیں گے۔ لیکن وہ بہت معصوم، سادہ اور کھرے شاعر تھے، وہ بہت مختلف تھے۔
اس مضمون میں بہت سے واقعات اور باتیں یقیناً پڑھنے والوں کے لیے نئی ہوں گی جن کو بیان کرنے کا مقصد ’لطف‘ لینا اور ان کو جان کر مسکرا کر آگے بڑھ جانا نہیں ہے بلکہ یہ سیھکنا، سمجھنا اور جاننا بھی ضروری ہے کہ کیسے کیسے ہیرے ہمارے ارد گرد موجود ہوتے ہیں لیکن ہم ان کی قدر نہیں کرپاتے۔ ریاست بھی ان لوگوں کو ان کی زندگی میں کوئی مقام نہیں دیتی اور نہ ان کے لیے روزگار اور وظیفے کا کوئی خصوصی انتظام کیا جاتا ہے۔ اگر کسی کی انفرادی محبت اور دلچسپی ہو تو ہو ورنہ اس بے حس معاشرے میں کسی کو کسی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
دلاور فگار سے منسوب بہت سی باتیں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ شاید پیتے پلاتے بھی تھے لیکن ان کے شاگرد رشید خالد عرفان نے سختی سے تردید کی اور کہا وہ میرے ساتھ بہت ہوتے تھے، دبئی بھی گئے کبھی شراب کو ہاتھ بھی نہیں لگایا، وہ بہت بھولے تھے، سرجھکا کر اپنی دنیا میں مست اردگرد کے ماحول سے بیگانہ چلا کرتے تھے۔
آپ نوائے وقت، جسارت اور مساوات اخبار سے بھی وابستہ رہے، بیگم نصرت بھٹو ان کی شاعری پسند کرتی تھیں، انہیں اخبار میں رکھ لیا، آپ مساوات میں نظمیں روزانہ لکھتے رہے، خالد عرفان کے ہی مطابق وہ دور آپ کا معاشی اعتبار سے سنہرا دور تھا، آپ پر نوازشات کی بارش تھی، شاعری کے علاوہ تین جگہوں سے تنخواہوں ملتی جس سے معقول آمدنی ہوجاتی تھی۔ وہ کیونکہ فقیر منش آدمی تھے اس لیے پیسہ ان کا مطمع نظر نہیں رہا تھا۔ وہ پیسے کی حفاظت نہ کرسکے اور تا دم مرگ دو کمرے کے ایک مکان میں مقیم رہے۔
پھر وہ دور آیا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوگئی، کے ڈی اے کی ملازمت بھی ختم ہوئی اور عبداللہ کالج لیاری سے لیکچرار شپ کا عہدہ بھی ختم ہوگیا، یوں مشکل وقت شروع ہوگیا۔ کے ڈی اے میں یہ حال تھا کہ صرف کرسی ہوتی تھی، اس کے سامنے کوئی میز نہیں ہوتی تھی اور جب تک ہارون صاحب ڈائریکٹر رہے، وہ رہے بعد میں آنے والوں نے ان کو فارغ کردیا۔
ایک مرتبہ ضیا الحق قاسمی نے کمشنر کراچی سے بات کی اور کسی کوٹے پر دلاور فگار کے لیے رہائشی پلاٹ کی منظوری کے لیے کمشنر آفس لے گئے، کمشنر نے 15 منٹ انتظار کے لیے کہا تو اٹھ کر چلے گئے کہ ’مجھے یہ درباری پلاٹ نہیں چاہیے جس کے لیے 15 منٹ انتظار کرنا ہو‘۔
آپ نے کراچی آرٹس کونسل کے ایک پروگرام میں دلچسپ انداز میں اپنے تخیلاتی آسمانی سفر کا قصہ سنایا تھا جو بہت طویل تھا جس کے دوران فرشتوں نے انہیں جنت میں داخل ہونے سے محض اس بنا پر روک دیا تھا کہ وہ مقررہ وقت سے قبل وہاں پہنچ گئے تھے۔ فرشتوں کا کہنا تھا کہ وہ واپس جائیں اور 5 سال بعد وہاں آئیں۔ خالد عرفان کے مطابق یہ 31 جنوری 1993 کا واقعہ تھا۔ اس کے تقریباً پانچ سال بعد یعنی21 جنوری 1998ء کو پاپوش نگر کی وہ سڑک جہاں دلاور فگار پیدل چلا کرتے تھے، اس کے ایک حصے میں اس عظیم مزاح نگار کی لاش بے حرکت پڑی تھی جس نے کہا تھا
ایسی بھی کیا خوشی کہ سڑک پر وصال ہو
اب اسی سڑک کا نام دلاور فگار روڈ ہے۔ حکومتِ پاکستان نے ان کی وفات کے بعد انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ آپ کی اولادوں میں ایک بیٹی نگار ہیں جن کے دو بچے ہیں۔ ان سے رابطے کی کوشش کی لیکن ممکن نہ ہوسکا۔
اردو شاعری میں طنز و مزاح کی شاعری تو بہت قدیم ہے لیکن اسے جو استحکام دلاور فگار نے بخشا ہے، اس کی دوسری مثال اب نہیں۔ تاہم ستم یہ ہے کے انہیں صرف نظر انداز ہی نہیں کیا گیا بلکہ بھلا بھی دیا گیا۔ سیاسی اور سماجی کمزوریوں کو شگفتہ انداز میں منظوم کرنا، زندگی کی ناہمواریوں اور اضطراب کو شوخ انداز میں ہنستے ہنساتے بیان کرنا، سیاسی بے اعتدالیوں پر بھرپور طنز کرنا اور وہ بھی شائستہ، پرکیف اور انوکھے انداز میں، یہ آپ ہی کا کمال تھا۔
غرض آپ پیدائشی مزاح نگار تھے، سیاسی و سماجی مسائل پر جتنی نظمیں آپ نے کہیں اتنی نظمیں کسی اور نے نہیں کہیں۔ آپ کے اشعار آج بھی تر و تازہ، حسبِ حال اور زندہ ہیں۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ دلاور فگار منوں مٹی میں کیا دفن ہوئے طنز و مزاح کی شاعری کا عروج بھی ان کے ساتھ دفن ہوگیا۔ آپ کو عام آدمی کی زندگی کے مسائل کو پیش کرنے میں عبور حاصل تھا۔
آپ کی شاعری کے چند نمونے ملاحظہ ہوں
اردو زبان سے متعلق ان کا یہ شعر ملا کیا کمال کا ہے
نہ اردو ہے زباں میری، نہ انگلش ہے زباں میری
زبانِ مادری کچھ بھی نہیں، گونگی ہے ماں میری
حالاتِ حاضرہ میں اب اصلاح ہو کوئی
اس غم میں لوگ حال سے بے حال ہوگئے
حالاتِ حاضرہ نہ سہی مستقل مگر
حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہوگئے
اگرچہ پورا مسلمان تو نہیں لیکن
میں اپنے دین سے رشتہ تو جوڑ سکتا ہوں
نماز و روزہ و حج و زکوٰۃ کچھ نہ سہی
شبِ برات پٹاخہ تو چھوڑ سکتا ہوں
دلاور فگار کی مشہور پیروڈیاں
بہ زمین: بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے (غالب)
میں شہر کراچی سے کہاں بہر سفر جاؤں
جی چاہتا ہے اب میں اسی شہر میں مرجاؤں
اس شہر نگاراں کو جو چھوڑوں تو کدھر جاؤں
صحرا مرے پیچھے ہے تو دریا مرے آگے
کراچی کی بسوں کے حوالے سے ایک طویل نظم کے کچھ اشعار
بس میں لٹک رہا تھا کوئی ہار کی طرح
کوئی پڑا تھا سایۂ دیوار کی طرح
سہما ہوا تھا کوئی گناہ گار کی طرح
کوئی پھنسا تھا مرغ گرفتار کی طرح
محروم ہو گیا تھا کوئی ایک پاؤں سے
جوتا بدل گیا تھا کسی کا کھڑاؤں سے
کوئی پکارتا تھا مری جیب کٹ گئی
کہتا تھا کوئی میری نئی پینٹ پھٹ گئی
بس میں تمام پردوں کی دیوار ہٹ گئی
ریش سفید زلف سیہ سے لپٹ گئی
تبصرے (1) بند ہیں